قومی اسمبلی میں الطاف حسین کیخلاف قراردادمنظور ، متحدہ نے مخالفت نہیں کی
اسلام آباد(اے این این) قومی اسمبلی میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف حکومت اور اپوزیشن کی قرارداد متفقہ طور پرمنظورکرلی گئی ہے جس میں پاکستان مخالف واقعات میں ملوث عناصرکیخلاف قانون وآئین کے مطابق کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔گزشتہ روزوفاقی وزیر برجیس طاہر کی قرارداد میں بانی ایم کیو ایم کی اشتعال انگیزتقریرسے میڈیا ہاوسزپر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایوان پاکستان مخالف نعرے لگانے پربانی ایم کیوایم کی شدید مذمت کرتا ہے۔یہ ایوان جرائم، تشدد، دہشت گردی اور پاکستان مخالف نعروں یا کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے ۔ ایوان پر تشدد اقدامات کا مخالف ہے۔ قرار داد میں میڈیا ہاسز پر حملوں کی بھی مذمت کی گئی ہے اور پاک فوج،عدلیہ سمیت ملک کے جمہوری اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرار داد کی مخالفت نہیں کی ،اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں چاہتا تھاکہ حکومت سے قبل ہم اپنی قرارداد پیش کریں، لیکن حکومت ایم کیو ایم کی قرارداد سے پہلے اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنی قرارداد لے آئی۔انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر پاکستان مخالف نعروں کی شدید مخالفت اور ایم کیو ایم کے بانی سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں۔فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے نہ لگایا جائے،ایم کیو ایم کیخلاف امتیازی رویہ برقراررکھاگیاتومزاحمت کریں گے۔وفاقی وزیر برجیس طاہر کے علاوہ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے بھی الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف قرارداد پیش کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اشتعال انگیز تقاریر کے بعد سے ایم کیو ایم کے بانی سے لا تعلقی کا اظہار کر لیا ہے، صرف ایک تقریر کو بنیاد بنا کر پوری مہاجر قوم کو نشانہ نہ بنایا جائے۔قرار داد رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی جس پر ایم کیو ایم کے 22 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط ہیں ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم ایم پاکستان ہرقسم کے جرائم اور دہشتگردی کی مذمت کرتی ہے ، حکومت پاکستان اور ادارے کھلے دل سے ایم کیو ایم کا خیر مقدم کریں ۔قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور کارکنان محب وطن پاکستانی ہیں ، ایم کیو ایم کے پیروکار پاکستان بنانے والوں کے بچے ہیں ، قرارداد میں پارلیمنٹ، مسلح افواج، عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی بھی کیا گیا ہے ۔بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ایوان میں مذمتی قرارداد کی تائید کرتے ہیں ، آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق کارروائی کی جائے، پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،بانی نے انحراف کیا، ہمارا مینڈیٹ برقرار ہے ۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ مینڈیٹ گلیوں ، محلوں اور ٹاک شوز میں چیلنج نہیں ہوسکتا ،اس کیلئے 2018 کا انتظار کریں ۔انہوں نے کہا کہ 22اگست کا دن پوری قوم کیلئے ہی نہیں ہمارے لیے بھی سب سے براتھا، ہم حکومت اور اپوزیشن کی قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال کنفیوژن پیدا کررہے ہیں ،ایک طرف کہاجارہاہے ملی بھگت ہے اوردوسری طرف کہاجارہا ہییڈرے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میئر اور بے وسیلہ بلدیاتی ادارے بنیادی مسائل ہیں ،جیل میں بیٹھے میئر کے گھر کو سب جیل ڈکلیئرکردیں،ہم کراچی چلاکردکھائیں گے،2 کروڑ کی آبادی کے شہری بغیر ٹرانسپورٹ کے ہیں ،70 فیصد ٹیکس دینے کے باوجود کراچی کے شہری پانی کی بوند بوند کو تر س رہے ہیں۔فاروق ستار کا کہنا تھاکہ پاکستان کے تمام آئینی اداروں سے کہا ہے کہ ہمیں کام کرنے دیں،ہمارے دفاتر گرائے جارہے ہیں ،نائن زیرو سیل ہے، ان خواتین کو گرفتار کیا گیا جو بلوے میں نہیں تھیں، اداروں کی ساکھ داو پر نہیں لگنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آفتاب احمد کا قتل ماورائے عدالت ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہمیں انگاروں پر چلایا جا رہا ہے اور ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھایا گیا ہے جب کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ہمارا بھی کردار ہے لہذا پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم نے پاکستان کی بقا اور سالمیت کے نام پر ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ قربانیاں دیں، پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ہمارا کردار ہے ۔ زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا اگر ایک شخص کا بیان اصل مسئلہ ہے تو ہم نے قربانی دی ان کو اپنے سے اور ان سے خود کو الگ کیا جب کہ ایم کیو ایم کی پاکستان میں ایک طویل جدوجہد ہے لہذا انصاف کا تقاضہ ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع ملنا چاہئے۔فاروق ستار نے کہا کہ 22 اگست کی تقریر پر آئین اور قانون کے تحت کارروائی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ 22 اگست کو جو کچھ ہوا وہ ناقابل قبول اور ناقابل برداشت بھی ہے اس لیے ہم نے لندن سے قطع تعلق بھی کیا اور اس کیلیے پارٹی آئین میں ترمیم بھی کی تاہم اس کے باوجود ہمارے فون مانیٹرہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ضمنی انتخابات میں مقابلہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں ہے لیکن ضمنی انتخابات میں کوئی اور مداخلت کررہا ہے یعنی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ الطاف حسین پر غداری کے مقدمے کی حمایت کرنے کے سوال پر فاروق ستار کا کہنا تھاکہ نہ وزیراعظم نے غداری کا لفظ استعمال کیا اور نہ ہی کسی اور جماعت نے جب کہ آج قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
قراداد
اسلام آباد(آئی این پی،مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کمیشن برائے انکوائری بل 2016قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا،وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے بل پیش کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کیجانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی،پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نویدقمر نے بل کو وزیراعظم بچاؤ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی اولاد نے اعتراف کیا کہ پانامہ آف شور کمپنیاں ان کی ہیں۔ پہلے وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کااعلان کیا مگر اب حکومت مکر گئی ہے،قوم کے سامنے حقائق نہیں رکھنے تو پھر قوم کاپیسہ اور وقت ضائع نہ کیا جائے،پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بل پانامہ کے حقائق کو دفن کرنے کیلئے لایا جارہا ہے،حکومت کے پاس عددی اکثریت ہے وہ بل منظور کروالے گی مگر اسکے دورس نتائج برآمد ہونگے۔وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ اپوزیشن صرف پانامہ معاملے پر تحقیقات کرانا چاہتی ہے مگر حکومت کسی بھی ملک میں آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے،اپوزیشن کا ہدف صرف وزیراعظم ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے کمیشن آف انکوائری کی تشکیل کا بل 2016پیش کیا ۔پانامہ ٹی او آرز پر 8اجلاس ہوئے مگر ڈیڈلاک ہوا حکومت نے لچک دکھائی مگر اپوزیشن اپنی بات منوانے کیلئے اپنے موقف کو ہمیشہ سخت رکھا اور تمام ٹی او آرز منوانے کی کوشش کی گئی،حکومت نے کہا کہ صرف پانامہ میں کمپنیوں کے حوالے سے نہیں بلکہ ٹی او آرز تمام ملکوں کیلئے ہونگے ہم ایک طاقتور کمیشن بنانا چاہتے ہیں اور زیادہ اختیارات اس کمیشن کو تفویض کرنے کا بل لیکر آئے،اپوزیشن کا بل صرف وزیراعظم کی ذات کیلئے تھا،1956کے کمیشن ایکٹ سے زیادہ مضبوط کمیشن بنایا جائے گا،اپوزیشن صرف پانامہ پیپرز مگرحکومت تمام ملکوں میں آف شور کمپنیوں کے مخالف ہے،اپوزیشن کی طرف سے صرف وزیراعظم کو اس بل میں ہدف بنایا جانا ہے۔نوید قمر نے کہا کہ آج یہ بل وزیراعظم بچاؤ بل ہے،انکشاف ہزاروں میل دور ہوئے اور وزیراعظم کے بچوں نے اس بات کا اعتراج کیا کہ یہ آف شور کمپنیاں انہی کی ہیں،قوم کا سوال ہے کہ وزیراعظم اس میں ملوث ہیں یا نہیں،وزیراعظم نے خود کہا کہ میں احتساب کیلئے تیار ہوں مگر بعد میں حکومت کمیٹی میں لیکر گئی،قوم کے سامنے جب حقائق نہیں رکھنے تو پھر قوم کا وقت اور پیسہ ضائع نہ کیا جائے اپوزیشن اس بل کومسترد کرتی ہے۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بل درحقیقت پردہ ڈالنے کیلئے لایا گیا ہے،پانامہ پر قرارداد کے بعد کمیٹی بنائی8 اجلاسوں میں حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آئی حکومت نشستن،گفتن اور برخاستن کے محاورے پر عمل پیرا رہی،حکومت عددی اکثریت کے ذریعے اس بل کو منظور کروالے گی مگر اس کے اثرات بہت دورس ہونگے یہ بل پانامہ حقائق کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔دریں اثناء قومی اسمبلی کوبتایا گیا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے لئے مہارت،جدید ہتھیاروں، تربیت اور جدید آلات کی کمی کا سامنا نہیں ہے،وزارت داخلہ کے زیر انتظام سول آرمڈ فورسز قومی داخلی سیکورٹی کے نظام کا اہم حصہ ہے،سول و آرمڈ فورسز کو پاک آرمی کی طرز اور معیارات کے مطابق تربیت دی جاتی ہے،سی ایف وائے میں ہتھیاروں کے حصول، ٹرانسپورٹ اور گولہ بارود کے لئے سول آرمڈ فورسز کو 10 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں،سول آرمڈ فورسز کے لئے کل سی ایف وائے بجٹ تقریبا 71 ارب روپے ہے ،آٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس کے معاملات سے عہدہ برآ ہونے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے ،صوبے پولیس کی استعداد بڑھانے کے لئے بھی کوشش کررہی ہیں،نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزارت داخلہ تقریبا 30 ارب روپے کی لاگت سے سول و آرمڈ فورسز کے 28 ونگز کی تشکیل کا کام مکمل کرچکی ہے،اسلام آباد کے لئے ریپڈ رسپانس فورس کی تشکیل پر 2 عشاریہ 7 ارب روپے کی لاگت زیر عمل ہے،حکومت پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبے کی سکیورٹی کے بہتر انتظامات کیے ہیں۔ اکیس ارب ستاون کروڑ کی لاگت سے نو انفنٹری بٹالین اور چھ سی اے،یف پر مشتمل خصوصی سکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا ہے صوبائی سول،آرمڈ فورسز کی جانب سے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئرز و دیگر اہلکاروں کو مناسب،سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے،سی پیک کی سکیورٹی کیلئے تیرہ ہزار سات سو اکتیس اہلکار تعینات ہین،سی پیک کی سکیورٹی کیلئے فرنٹیئر کو کے پی کے کا ایک ونگ ہے جو 852 اہلکاروں پر مشتمل ہے،فرنٹیر کور بلوچستان کا ایک ونگ ہے جس میں 730 اہلکار ہیں،پنجاب رینجرز کا ایک ونگ ہے جس میں 2190 اہلکار ہیں۔ فوج کی مجوعی انفینٹری بٹالین نو ہزار دو سو انتیس اہلکاروں پر مشتمل ہے ۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی صدارت میں ہوا ،اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری براے داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مدرسوں کی میپنگ مکمل ہو چکی ہے اور مدارس کی رجسٹریشن کا کام ہو رہا ہے ‘ اسلام آباد میں سمیت صوبوں میں بھی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور ان میں جو مدارس رجسٹرڈ نہیں ہوں گے ان کی تفصیلات بھی بتائی جائیں گی اور فنڈنگ کے حوالے سے بھی رجسٹریشن کے دوران خیال رکھا جائیگا۔ دہشت گردو ں کو فنڈنگ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ دہشت گردو کی مالی معاونت کو روکا جا رہا ہے اور اس حوالے سے کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صحت اور تعلیم کے شعبے مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہیں۔ ماضی میں پی ایس ڈی پی نا مکمل منصوبے تھے اور اگر 10 سال تک بھی پچھلے منصوبوں کو فنڈنگ کریں مگر پچھلی حکومتوں نے آدھے کچے او رآدھے پکے منصوبے رکھے۔ سرمایہ کاری بورڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں و زیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے انکشاف کیا کہ سرمایہ کاری بورڈ کے اب تک کوئی اجلاس نہیں ہے جس پر پی پی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے کہا کہ اس طرح ریاست کے معاملات نہیں چلائے جاتے۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کے دسمبر 2015ء آخری تاریخ تھی مگر بعد میں اس کی توسیع کی گئی اور آخری تاریخ 30 ستمبر تک ہے۔ اگلے ہفتے تک تمام باقی ماندہ ممالک میں بھی مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ لگا دیا جائیگا۔ نادرا میں ریونیو حاصل کرنے کے ذرائع نائیکوپ ‘ شناختی کارڈ اور اسلحہ لائسنس کی تجدید شامل ہے اور اسی ریونیو سے نادرا اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ غلام احمد بلور نے کہاکہ پورے ملک میں پختونوں کے لاکھوں کارڈ بلاک کئے گئے ہیں۔ 1979ء کے بعد آنے والوں کے کارڈ بلاک کر دئیے جائیں مگر جو لوگ پہلے سے یہاں رہ رہے ہیں ان کو کارڈز کیوں بلاک کیا جاتاہے جس پر پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورنگزیب نے جواب دیا کہ کسی بھی پختون کا شناختی کارڈ بلاک نہیں کیا گیا۔ رنگ ‘ نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کا شناختی کارڈ بلاک نہیں کیا جاتا۔ 6 مراحل سے کارڈ بلاک سسٹم گزرتا ہے۔ غلام احمد بلور نے کہاکہ وزارت اس معاملے پر درست بیان نہیں دے رہی۔ وزیر داخلہ یا پارلیمانی سیکرٹری میرے ساتھ میرے حلقے میں آئیں ان کو پتہ چل جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہاکہ اس معاملے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ غلام احمد بلور نے کہاکہ وزارت داخلہ صرف پختونوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ عبدالقہار ودان نے کہاکہ صرف پختونوں کو نشانہ بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ تمام پشتون قومیت کے لحاظ سے افغان ہیں ان کو افغانستان کے ساتھ نہ جو ڑا جائے۔