بھارتی یونیورسٹی میں ہندو لڑکوں کا مسلمان لڑکیوں کے خلاف ایسی بات پر احتجاج کہ جان کر آپ بھی شکر کریں گے ہمیں پاکستان مل گیا

بھارتی یونیورسٹی میں ہندو لڑکوں کا مسلمان لڑکیوں کے خلاف ایسی بات پر احتجاج ...
بھارتی یونیورسٹی میں ہندو لڑکوں کا مسلمان لڑکیوں کے خلاف ایسی بات پر احتجاج کہ جان کر آپ بھی شکر کریں گے ہمیں پاکستان مل گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) مشہور کہاوت ”چھاج تو بولے، چھلنی کیوں بولے“ کے مصداق مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اب بھارت میں بھی مسلمان خواتین کے برقعہ اور حجاب پہننے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل فرانس کے دو شہروں میں مسلم خواتین کے ساحلوں پر برکنی پہننے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے جبکہ کئی مغربی ممالک میں حجاب کی وجہ سے مسلم خواتین پر حملے ہو چکے ہیں۔

اسلحے کی خریداری کیلئے بھارتی حکومت نے عوام سے عطیات دینے کی اپیل کردی
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اب بھارتی ریاست کرناٹک کے مختلف کالجوں میں ہندو طلباءگلے میں زعفرانی رنگ کے مفلر پہن کر مسلم خواتین کے برقعہ و حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔یہاں واضح رہے کہ زعفرانی رنگ ہندومت کا مذہبی رنگ تصور کیا جاتا ہے اور ہندو اپنی مذہبی پہچان کے لیے یہ رنگ پہنتے ہیں۔ یہ ہندو طلباءمطالبہ کر رہے ہیں کہ ریاست کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلمان طالبات کے برقعہ پہننے اور حجاب لینے پر پابندی عائد کی جائے۔ اس احتجاج کا سلسلہ گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب کرناٹک کے شہر مینگلورکے ایک فارمیسی کالج نے اپنی فرسٹ ایئر کی مسلمان طالبات کے حجاب اور برقعہ پہننے پر پابندی عائد کردی۔ اس پر فارمیسی کالج کے مسلمان طلباءو طالبات اس پابندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا آئین انہیں اپنی مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اور کسی کو یہ حق سلب کرنے کی اجازت نہیں۔اس احتجاج میں مسلمان طلباءو طالبات کے والدین نے بھی شمولیت اختیار کی جس پر کالج کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑ گیا۔ کالج کے برقعے اور حجاب پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے پر ہندو طلباءمشتعل ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا اور اٹھائی گئی پابندی کو دوبارہ نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب یہ سلسلہ ریاست کے کئی کالجز تک پھیل چکا ہے۔فارمیسی کالج انتظامیہ کی عہدیدار سیتا رام کا کہنا ہے کہ ”دونوں مذاہب کے طلباءو طالبات انتظامیہ کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور طاقت کے ذریعے اپنی بات منوانے پر بضد ہیں۔“