جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر78

Sep 03, 2017 | 12:06 PM

گھر پہنچ کرمیں نے اطمینان کا سانس لیا ،چھوٹی سی غلطی بعض اوقات کتنے بھیانک نتائج لاتی ہے۔ اسی بیڈ روم کے باہر میں نے خود اپنی آواز سنی تھی۔ کیا وہ سب کچھ میرا وہم تھا؟ہوسکتا ہے صائمہ کے گیٹ نہ کھولنے کی پریشانی سے میرے تخیل نے کچھ گھڑ کر میرے سامنے پیش کر دیا ہو۔ میں نے خود کو مطمئن کیا لیکن دماغ مسلسل اس دلیل کی نفی کر رہا تھا آواز بڑی واضح تھی جتنا سوچتا اتناہی الجھ جاتا۔ صائمہ سمجھ رہی تھی کہ میں نے اپنی چابی سے گیٹ کھولا تھا جبکہ اس دن میں چابی گھر بھول گیا تھا۔ گیٹ میں خود کار قفل لگا ہوا تھا جو باہر سے چابی اور اندر سے ہاتھ سے کھل جاتا تھا مکمل صحتیابی میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ اسکے بعد میں نے بینک جانا شروع کیا۔
سارے سٹاف نے فرداً فرداً میرا حال پوچھا۔ وہ میرے گھر آکر بھی بیمار پرسی کرچکے تھے۔ خاص کر محمد شریف نے تو بہت تپاک سے پوچھا تھا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں کچھ صدقہ اداکر دوں کہ ردبلا ہے۔ میں نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ میں سر پر رومال باندھے رکھتا کیونکہ ڈاکٹر نے ٹانکے لگانے سے قبل سر کے بال اس جگہ سے مونڈھ دیے تھے۔ ایک ہفتے کے دوران پھر کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔ رادھا بھی مسلسل غائب تھی ۔جو دوا ڈاکٹر نے دی تھی اس میں خواب آوار دوا بھی تھی رات کو کھا کر سوتا تو کچھ ہوش نہ رہتا۔ ہر روز میں سوچتا کہ رادھا کو بلاؤں لیکن سونے کے بعد دن چڑھے آنکھ کھلتی۔ آج ٹانکے کھلنے تھے جب ڈاکٹر نے کہا اب دواکھانے کی ضرورت نہیں تو میں نے شکر کیا۔ رات کو ہم گھر واپس آئے تو صائمہ بہت خوش تھی۔ بات بات پر وہ مسکرا دیتی۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر77  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیا بات ہے آج بہت خوش ہو؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔
’’آپ کو اچھا نہیں لگا کہ میں خوش ہوں‘‘ اس نے عجیب سا جواب دیا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’صائمہ مجھے تمہاری خوشی دنیا میں ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ میں نے اس کاہاتھ تھام لیا۔
’’اچھا۔۔۔؟ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘ اس نے اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔ میں سمجھا وہ مذاق کر رہی ہے لیکن اس کے چہرے کے تاثرات اس بات کی نفی کر رہے تھے۔
’’کیا بات ہے مجھ سے ناراض ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔میں کیوں ناراض ہونے لگی؟‘‘ اس کے چہرے سے بیزاری عیاں تھی ،جیسے اسے میری باتیں اچھی نہ لگ رہی ہوں۔ حالانکہ ہسپتال سے گھر آتے ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور باہر چلی گئی۔ میں حیرت سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔یقیناًصائمہ میرے اور رادھا کے بارے میں جانتی ہے۔ اس رات جب میں رادھا سے مل کر آیا تو صائمہ نہ صرف بیٹھی تھی بلکہ اس نے بڑے سخت لہجے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کہاں سے آرہا ہوں؟ اگر صائمہ ہمارے تعلقات سے باخبر ہے تو ۔۔۔؟ پریشانی سے میرا برا حال ہوگیا۔ کیا اسے معلوم ہو چکا ہے ہم دونوں کے درمیان کیسا رشتہ استوارہو چکا ہے؟ میں نے گھبرا کر سوچا۔ یقیناًیہی بات ہے ورنہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ صائمہ میرے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنائے ہے۔
میں کافی دیر بیٹھا یہی سوچتا رہا پھر باہر نکل آیا۔ سوچا صائمہ سے دوچار باتیں کرکے معلوم کروں کہ آیا میرا خیال صحیح ہے یا کوئی اور بات ہے؟ میرا خیال تھا وہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی ہوگی لیکن صائمہ وہاں نہیں تھی۔ ڈرائنگ روم بھی اس کے وجود سے خالی تھا میں نے باہردیکھا۔ وہ لان میں بچھی کرسی پربیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔ میں دبے قدموں اس کے پیچھے پہنچا تو بری طرح چونک اٹھا ۔ وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔ صائمہ کی آواز بہت اچھی ہے کبھی کبھی وہ میری فرمائش پر کچھ سنا دیتی۔ لیکن ایسا وہ صرف میرے کہنے پر اس وقت کرتی جب ہم دونوں کے سوا کوئی نہ ہوتا۔ وہ جھولنے والی کرسی پر بیٹھی بڑے جذب کے عالم میں گنگنا رہی تھی۔ اسے اردگرد کی کچھ خبر نہ تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بری طرح اچھل پڑی۔
’’آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟‘‘ بیزاری اس کے لہجے سے عیاں تھی۔ میں سامنے والی کرسی پربیٹھ گیا۔
’’صائمہ! مجھے بتاؤ کیا بات ہے تم کس بات پر مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ وہ خاموشی سے بیٹھی گود میں رکھے ہاتھوں کو گھورتی رہی۔
’’صائمہ میں نے کچھ پوچھا ہے؟‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’کوئی بات ہو تو بتاؤں بھی۔۔۔میں نے کچھ کہا ہے آپ سے ؟‘‘ اسنے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اورکھڑی ہوگئی۔ لہجے میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں نے کھڑے ہو کر اسے اپنی بانہوں میں لینے کی کوشش کی۔
’’فاروق! کیا ضروری ہے کہ ہر وقت انسان یہی سب کچھ کرتا رہے ۔۔۔؟ بیوی ہونے کا مطلب یہ تونہیں کہ میں ہر وقت آپ کی ’’خواہش‘‘ کی غلام بنی رہوں‘‘ اس نے سختی سے کہا اور پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔ میں کافی دیر بیٹھا اسکے رویے کے بارے میں سوچتا اور پریشانی میں سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا ہرا۔ میرا خیال تھا وہ ابھی آکر اپنے رویے کی معافی مانگے گی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے میرے سینے سے لگ جائے گی۔ لیکن وہ نہ آئی۔ آخر تھک ہار کر میں نے بیڈ روم کا رخ کیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو حیران رہ گیا۔ صائمہ بستر پر نہ تھی۔ باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا پھر بھی میں نے اندر جھانک کر دیکھا وہ بھی خالی۔ میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا وہ وہاں بھی نہ تھی میں لاؤنج کی طرف بھاگا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ بندتھا میرے ہاتھ لگانے سے بھی نہ کھلا۔ یا خدا ! یہ کیامعاملہ ہے؟ میں نے دروازے پر دستک دی۔۔۔آوازیں دیں۔ کافی دیر بعد دروازہ کھلا اور صائمہ سرخ آنکھیں لیے نمودار ہوئی۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
’’صائمہ!‘‘ میں نے اسے جھنجھوڑا۔
’’آں۔۔۔‘‘ وہ اس طرح چونکی جیسے نیند سے جاگی ہو۔ پہلے اس نے اردگرد دیکھا پھر مجھے اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’فف۔۔۔فاروق! یہ کیا؟ میں تو بیڈ روم میں سو رہی تھی۔ کیا آپ مجھے یہاں لائے ہیں؟ ‘‘ وہ آنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی بات پر حیران رہ گیا۔
’’بتائیے نا میں یہاں کیسے۔۔۔؟ کیا میں ڈرائنگ روم میں سو گئی تھی؟‘‘ حیرت اس کے چہرے پر ثبت تھی۔
’’ہاں۔۔۔ہاں کیا بھول گئیں؟ تھوڑی دیر پہلے ہی تم ہم دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے باہر لان میں چہل قدمی کے لئے چلا گیا تھا واپس آیا تو تم یہیں صوفے پر سو رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہتم شاید گہری نیند میں تھیں اسلئے میں تمہیں چلا کربیڈ روم میں لے جا رہا تھا کہ تمہاری آنکھ کھل گئی‘‘ میں نے فوراً کہانی گھڑ کر سنادی۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ جاگ رہے ہوں اورمیں سو جاؤں؟‘‘ اس نے میرے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
’’انسان تھکا ہوا ہو تو ایسا ہو جاتا ہے اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ وہ چپ رہی لیکن ابھی تک حیرت زدہ تھی۔ بیڈ پر لیٹ کر وہ میری جانب مڑی۔
’’سوری فاروق! نہ جانے کیسے مجھے نیند آگئی؟‘‘ اسنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا میں نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
جب وہ سو گئی تو میں ایک بارپھر اسی گورکھ دھندے میں کھو گیا۔ نہ سمجھ آنے والی کیفیت تھی اس کی۔ کہیں واقعی صائمہ کو نیند میں چلنے کی بیماری تو نہیں ہوگئی؟ میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ میرے ساتھ اچھی بھلی باتیں کر رہی تھی نہ جانے میری کس بات سے چڑ کر باہر چلی گئی تھی۔ اس کے بعد وہاں بھی اس نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور اٹھ کر اندر آگئی لیکن بیڈ روم میں آنے کے بجائے ڈرائنگ روم میں جا کر سو گئی۔ زیادہ دیر میں نہ سوچ سکا نیند کی مہربان دیوی نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح حسب معمول صائمہ نے مجھے جگایا تو وہ ہشاش بشاش تھی۔ چہرے پر بڑی پیاری مسکان لیے اس نے مجھے سلام کیا۔ وہ کسی طرح رات والی صائمہ نہ لگ رہی تھی۔ ناشتے کے بعد اسنے روزانہ کی طرح مجھے مسکراتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں رخصت کیا۔ بینک میں کام کی مصروفیت ذرا کم ہوئی تو میں نے سوچا فون کرکے صائمہ کی خیریت دریافت کروں اور اس سے رات کے رویے پر بھی بات کروں، دراصل مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا کہیں صائمہ ہمارے تعلقات سے آگاہ نہ ہوگئی ہو۔ ہو سکتاہے اسنے صرف کمپرومائز کیا ہو۔ طرح طرح کے خیالات میرے ذہن کوپریشان کرتے رہے۔ میں چاہتا تھا کہ فون پر اس سے پوچھوں سامنے شاید میں اتنا واضح جھوٹ نہ بول سکتا۔ فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ صائمہ تیسری چوتھی بیل پر فون اٹھا لیا کرتی۔ بیل جاتی رہی لیکن کسی نے فون اٹینڈ نہ کیا۔ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے فون بندکیا اور چابیاں اٹھا کر باہر نکل آیا۔ آندھی اور طوفان کی طرح گاڑی بھگاتا میں گھر پہنچا۔ باہر کے تالے کی چابی میرے پاس تھی۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوااور بھاگتا ہوا بیڈ روم میں پہنچا اندر جھانکا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔(جاری ہے )

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں