عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر61
قاسم دیر تک قسطنطنیہ کی جانب سر اٹھا ئے دیکھتا رہا۔ اسے یہاں سے ’’برجِ غلاطہ‘‘ کسی میخ کی طرح نکلا ہوا دکھائی دے رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد مچھیروں کے بچے دوڑتے ہوئے قاسم کے قریب نکل آئے۔ یہ عیسائی بچے تھے اور راہب کے لباس کو پہچانتے تھے۔ وہ مقدس باپ، مقدس باپ کہتے ہوئے قاسم کے گرد جمع ہونے لگے۔ قاسم کو ابھی قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اس ساحل پر موجود اپنے سپاہیوں اور معماروں کو تلاش کرنا تھا ۔ اور ان کے کام کا جائزہ لینا تھا ۔ چنانچہ قاسم نے مچھیروں کی بستی میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ۔ اور اپنے گرد جمع ہوتے ہوئے بچوں کے ساتھ پادریوں والی شفقت سے پیش آنے لگا۔ بچے اگرچہ میلے کچیلے تھے ۔ لیکن ان کی رنگت یونانیوں جیسی صاف تھی۔ یہ مچھیرے بھی دراصل یونانی الاصل تھے۔ قاسم نے بچوں کو اپنے سامان سے کھانے کی کچھ چیزیں نکال کر دیں۔ تو وہ اس پر نثار ہوگئے۔ اب بچے قاسم کی ہر بات کا اشتیاق سے بھرپور لہجے میں جواب دے رہے تھے۔ قاسم نے ایک تیز طرار بچے سے پوچھا :۔
’’کیوں بیٹا! یہاں قریب ہی کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں.........شاید غیر ملکی سپاہی ہیں..........کیا تم جانتے ہوکہ وہ کس طرف ہیں؟؟‘‘
’’جی ہاں! وہ سب کے سب سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی تلواریں . گول ہیں.......ایسے۔‘‘
بچے نے ہاتھ کے اشارے سے مسلمانوں کی مخصوص ہلالی تلوار کی ہوا میں شکل بنائی، تو قاسم کے چہرے پر مسکراہٹ کی جھلک دکھائی دی۔ وہ سمجھ گیا کہ سلطان کے سپاہی اس ساحل پر قلعہ بنانے کے لیے پہنچ چکے ہیں۔ ابھی قاسم کچھ اور پوچھنے ہی والا تھا کہ دو بچے بہ یک وقت بے صبری کے ساتھ بول اٹھے:۔
’’جی ہاں !!...........اور وہ اپنے ساتھ بہت سارا سامان بھی لائے ہیں..........وہ اس طرف ہیں۔‘‘
بچوں نے بحرِ اسود کے ساحل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بچوں نے قاسم کو بتایا کہ عمامے والے سپاہیوں اور یونانی سپاہیوں کے درمیان نوک جھوک اور اکا دکا لڑائی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ قاسم نے اطمینان کی سانس لی اور اسے یقین ہوا کہ قلعہ کی تعمیر کا سربراہ ’’مصلح الدین آغا‘‘ اپنے کام کا آغاز کرچکاہے۔ قاسم نے مزید کچھ باتیں کرنے کے بعد بچوں سے کہا’’چلو!............تمہاری بستی میں چلتے ہیں۔ میں تمہیں یسوع کا قصہ سناؤں گا۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر60پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بچے خوشی سے اچھل پڑے اور قاسم کے آگے آگے بھاگنے لگے۔ اب قاسم مچھیروں کی بستی میں جارہاتھا ۔یہ تیس پنتیس گھروں پر مشتمل ایک بستی تھی۔ زیادہ تر مرد اپنے اپنے جال سمندر میں ڈالے آبنائے باسفورس کے نیلے پانیوں میں دور سے سیاہ دھبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ سورج پوری آپ و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا ۔ عورتیں اپنے گھروں میں کھانے پکانے کے کام میں مصروف تھیں۔ البتہ لڑکیاں بالیاں باہر کھلے ساحل پر دھوپ میں کھیل رہی تھیں۔ کچھ دوشیزائیں ایک طرف بیٹھی چمکتی دھوپ میں اپنے اپنے بال کھولے ان میں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ وہ اس کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی بٹا رہی تھیں۔ اور ذرا ذرا سی بات پر زور زور سے ہنس رہی تھیں۔ جونہی ان دوشیزاؤں کی نظرقاسم پر پڑی ان کے قہقہے وہیں رک گئے۔ اور وہ ایک دوسرے کو چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ لڑکیاں بالیاں بھی اجنبی کی طرف بھاگیں اور دوشیزائیں بھی اس نوجوان پادری کے نزدیک آگئیں۔ قاسم کا قدو قامت اور سرخ و سفید چہرہ دیکھ کر مچھیرن دوشیزاؤں کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتنا کڑیل اور خوبصورت راہب انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ انہوں نے مقدس باپ کو سلام کیا ۔ اور سرجھکا کر دھیرے دھیرے ہنسنے لگیں۔ قاسم نے لڑکیوں کی نگاہوں میں اپنے لیے ستائش کے جذبات دیکھ لیے تھے۔ اس نے ایک معصوم مسکراہٹ پھینکتے ہوئے راہبانہ انداز میں کہا:۔
’’بچو! سلامت رہو! لمبی عمر پاؤ! اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہو! کیونکہ خداوندِ یسوع مسیح محبت کو پسند کرتے ہیں۔‘‘
محبت کے لفظ پر دوشیزائیں کسمسائیں ۔ ایک تیز طرار لڑکی نے جھٹ قاسم سے سوال کردیا :۔
’’فادر ! کیا آپ نے محبت کی ہے؟..........کبھی ، کسی کے ساتھ ؟‘‘
’’ہاں ! میں نے پوری انسانیت کے ساتھ محبت کی ہے۔ میرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں.........بچو! میرے دل میں سب کے لیے محبت ہے۔ آپ کے لیے بھی۔‘‘
قاسم کے آخری الفاظ پر ایک شرمیلی سی مچھیرن دوشیزہ نے پہلی بار پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا ۔ قاسم کی نظر اس لڑکی کے چہرے پر پڑی تو اسے محسوس ہوا کہ یہ لڑکی دوسری لڑکیوں سے مختلف ہے۔ قاسم ابھی اسی جگہ موجود تھا کہ ایک بوڑھا مچھیرا کندھے پر چپو ڈالے اسی جانب آتا ہوا دکھائی دیا ۔ بچے بولے:۔
’’سر دار آرہا ہے‘‘
لڑکیا ں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ مچھیروں کا سردار قاسم کے قریب آیا اور قاسم سے ادب کے ساتھ ملا۔
’’مقدس باپ ! آپ نے ہماری بستی میں آکر ہمیں بہت شرف بخشا ہے۔ یہاں بہت کم فادر آتے ہیں۔ ہم مچھیرے ہیں نا! اس لیے ۔ یہاں ہم نے خودایک جھونپڑی کو چرچ بنا رکھا ہے۔ آپ آئیے! آپ کے آنے سے پہلی بار ہمارے چرچ میں ایک مقدس راہب داخل ہوگا۔‘‘
قاسم نے بوڑھے سردار کو فادروں والی شفقت دی۔ اور اس کے ساتھ چل پڑا۔
شام تک پوری بستی اسی دھن میں لگ گئی کہ مقدس باپ زیادہ سے زیاد دیر ان کے یہاں ٹھہرے۔ قاسم کو اندازہ نہ تھا کہ مچھیروں کی بستی میں اسے اس قدر پذیرائی ملے گی۔ اسے ڈر تھا کہ مچھیرے جو کہ یقیناًیونانی کلیسا کے ساتھ وابستہ ہوں گے ۔ اس کے ’’رومن کیتھولک‘‘ ہونے پر اچھا نہ جانیں گے۔ اس نے رومن کیتھولک لباس کسی اور مقصد کے لیے پہنا تھا ۔ لیکن مچھیروں کو جب معلوم ہوا کہ فادر ’’روما‘‘ سے آیا ہے ۔ تو وہ اور بھی زیادہ بچھنے لگے۔ وہ ان پڑھ غیر مذہبی لوگ تھے ۔ اور انہیں مذہبی فرقوں کی زیادہ خبر نہ تھی۔ اب یہاں رہنا قاسم کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا ۔ چنانچہ اس نے مچھیرو ں کی بستی میں رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ قسطنطنیہ کی سمندری اطراف کا گہری نظر سے جائزہ لے کر سلطان کو آگاہ کرسکے۔ وہ یہیں سے قسطنطنیہ جانا چاہتا تھا ۔ لیکن اس طرف سے قسطنطنیہ جانے کے لیے اسے راستے میں پڑنے والے ’’گولڈن ہارن‘‘ کو کشتی کے ذریعے عبور کرنا پڑتا ۔ اور اگر وہ خشکی کے راستے قسطنطنیہ داخل ہونا چاہتا تو اسے ’’گولڈن ہارن‘‘ کے اوپر سے ہوکر شہر کے بڑے دروازے ’’سینٹ رومانس‘‘ سے داخل ہونا پڑتا ۔
چنانچہ قاسم مچھیروں کی بستی میں رہ پڑا۔ شرمیلی لڑکی جو دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی، بستی کے سردار کی بیٹی تھی۔ اس کا نام ’’روزس‘‘ تھا اور باقی لڑکیا اسے ’’روزی ‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ بستی کی لڑکیا اور بچے قاسم سے انجیل کا سبق پڑھنے لگے۔ اور اس کے ایک ایک اشارے کے گرویدہ ہوگئے۔ روزی جانتی تھی کہ قاسم ایک راہب ہے۔ اور وہ کبھی بھی شادی نہیں کرسکتا۔ لیکن پھر بھی وہ قاسم کو دیکھتے ہی خدا جانے کیوں نئے نئے سپنے دیکھنے لگی تھی۔ یہ سپنے تو وہ پہلے سے ہی دیکھتی تھی۔ وہ دیکھتی تھی کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ کسی نہ کسی روز اسے لینے کے لیے ضرور آئے گا۔ لیکن اس نے یہ نہ سوچاتھا کہ وہ شہزادہ ایک راہب کے روپ میں آئے گا۔ وہ دن بھر کسی نہ کسی بہانے قاسم کی خدمت میں حاضر رہتی۔سادی سی ، معصوم سی اور شرمیلی سی وہ مچھیرن تیسرے دن ہی دل و جان ہار بیٹھی۔ اور قاسم سے کہہ دیا :۔
’’فادر ! آپ اس عمر میں ایک راہب کی حیثیت سے بالکل اچھے نہیں لگتے۔........آپ کو سپاہی ہونا چاہیے تھا۔‘‘
قاسم مسکرا رہا تھا ۔ اس معصوم مچھیرن کو کیا معلوم کہ جس نوجوان پر وہ مرمٹی ہے ۔ وہ فی الحقیقت سپاہی ہی ہے۔ قاسم اپنی آمد کے دوسرے روز ہی ’’آبنائے باسفورس ‘‘ کے اس ساحل کا ’’گولڈن ہارن‘‘ تک جاکر جائزہ لے آیا تھا وہ جنوب کی طرف بھی گیا تھا ۔ اور اس نے دور سے ’’مصلح الدین آغا‘‘ کے معماروں کو سلطانی قلعے کا کام کرتے بھی دیکھا تھا ۔اپریل کے اختتام تک قلعے کی بنیادیں چنوائی جاچکی تھیں۔ سلطان نے اس قلعے کا نام ’’رومیلی حصار‘‘ تجویز کیا تھا ۔اب قاسم ’’گولڈن ہارن‘‘ کا مزید جائزہ لینا چاہتا تھا ۔ وہ فی الحقیقت اس زنجیر کو نزدیک سے دیکھنا چاہتا تھا ۔ جو ’’گولڈن ہارن‘‘ کے دھانے پر سمندر میں لٹکائی گئی تھی۔ گولڈن ہارن ایک چھوٹی سی خلیج تھی جو قسطنطنیہ کے پہلو میں فصیل کے ساتھ لیٹی تھی۔ یہ چھوٹی سی خلیج ’’آبنائے باسفورس‘‘ سے نکل کر یورپی ساحل میں داخل ہوگئی۔ عام طور پر چھوٹے جہاز اور کشتیاں جو آبنائے میں چلتی ہیں۔ اس خلیج میں بھی داخل ہوجاتی ہیںَ گولڈن ہارن کی جانب سے قسطنطنیہ کی یورپی تجارت ہوتی تھی۔اسی جانب شہر کا ایک اور دروازہ تھا۔ جو خلیج میں کھلتا تھا ۔ اسی خلیج کے دہانے پر شہر کی حفاظت کے لیے لوہے کی ایک بہت بڑی زنجیر یوں باندھی گئی تھی کہ عام حالات میں وہ ڈھیلی ہو کر سمندر کے اندر لٹکی رہتی ۔اور جب کبھی ’’گولڈن ہارن‘‘ میں کشتیوں اور جہازوں کو روکنا مقصود ہوتا تو زنجیر کھینچ کر ’’گولڈن ہارن‘‘ کا دروازہ بند کر لیا جاتا ۔ روزِ اول سے کوئی بھی فاتح قسطنطنیہ کو اس لیے فتح نہ کرسکا تھا کہ یہ زنجیر خلیج کے دھانے پر اس کا راستہ روک لیتی ۔ قاسم اسی زنجیر کو نزدیک سے دیکھنا چاہتا تھا۔
آج مچھیروں کی بستی میں اسے پانچواں روز تھا ۔ اور آج صبح ہی ایک ایسا واقعہ پیش آگیا تھا ۔ جس نے قاسم کو کسی قدر چونکا دیا تھا ۔ جب علی الصبح یونانی سپاہیوں پر مشتمل قیصری فوج کا ایک دستہ مچھیروں کی بستی میں آنکلا تھا ۔ سپاہیوں کو جونہی علم ہوا کہ بستی میں نیا پادری آیا ہے۔ وہ اس پادری سے ملنے کے لیے چلے آئے۔ لیکن جونہی ان کی نظر قاسم کے مذہبی لباس پر پڑی وہ ٹھٹک گئے۔ ان کے سپہ سالار نے قاسم کے جبے پر بنے پاپائے روم کے نشان کو دیکھ کر قاسم سے پوچھا:۔ ’’مقدس باپ! یہ کیا ہے؟‘‘
قاسم نے اپنے چہرے سے کوئی پریشانی ظاہر نہ ہونے دی۔ اور بڑی بے نیازی سے کہا:۔
’’یہ عظیم باپ پوپ کا عطا کردہ نشان ہے۔‘‘
لیکن قاسم جواباً دستہ سالار کی بات سن کر حیران رہ گیا ۔ اس نے کہا تھا :۔
’’دیکھیے جی! ..........اب یہ وقت آگیا ہے کہ رومن کیتھولک مذہب کے پادری یونانی کلیسا کے علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ سب شہنشاہ کی کمزوری ہے۔ شہنشاہ تو چاہتا ہے کہ عیسائیوں کے یہ دونوں فرقے متحد ہوجائیں۔ لیکن دیکھنا ہم یونانی کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘
دراصل قاسم کی حیرت بجا تھی۔ کیونکہ اسے شہنشاہ کی کوششوں کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ قیصر اسی روز سے چوکنا ہوگیا تھا ۔ جب عثمانی فوج کے کچھ سپاہی ’’آبنائے باسفورس‘‘ کے یورپی ساحل پرآن اترے تھے۔اور شہنشاہ نے اسی روز سے قسطنطنیہ کی حفاظت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیا تھا ۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)