کشمیر کی آزادی کا مسئلہ
وزیراعظم عمران خان نے جمعہ (30 اگست) کے روز کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پوری پاکستانی قوم کو متحرک کیا۔ پورا ملک آدھے گھنٹے کے لئے ٹہر سا گیا تھا۔ ہر شہر اور علاقے میں عوام نے ریلیاں نکالیں۔ ”کشمیر بنے گا پاکستان“کے نعرے بلند کئے۔ یہ نعرہ جس کسی نے بھی بنایا اور جن لوگوں نے اس کی منظوری دی، انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس نعرے کے مضمرات کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر قیام پاکستان کے وقت سے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی گھمبیریت کے پیش نظر اس کا آئینی حل مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ایک سے زائد مواقع ضائع کر دیئے ہیں۔ ایوب خان، بھٹو، یحییٰ خان، مشرف کے ادوار میں کبھی اس مسئلہ کو حل کرانے کا جنگی یا غیر جنگی راستہ تلاش نہیں کیا گیا۔ اگر زیادہ دور اندیشی، دانشمندی، ہمت، سے کام لیا جاتا تو آج کشمیر ی عوام آزادی حاصل کر چکے ہوتے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کو اپنی مملکت کا آئینی حصہ بنا چکی ہے، اسے اس فیصلے کو ختم کرنے کے لئے مجبور کرنا اسی طرح نا ممکن ہوگا جیسے بھارتی حکومتوں کو اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قرار داد پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ اقوام متحدہ بھی تماش بینی کرتی رہی۔ دنیا کے بڑے طاقت ور ممالک بھی خاموش رہے۔ کیوں کہ معاملہ مسلمانوں کا ہے، اگر عیسائی ریاست قائم کرنا مقصد ہوتا تو پاکستانی اور کشمیری بھی دیکھتے کہ کس طرح جبر اختیار کر کے ممالک توڑ کر الگ ریاستیں قائم کر دی گئیں۔ تین بار سے زائد فوجی کارروائی کے ذریعہ کشمیر آزاد کرایا جا سکتا تھا۔ اقوام متحدہ کی قرار داد پر نہرو نے اپنی چانکیہ سیاسی چال کے تحت عمل نہیں کیا، دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے دھوکہ دیتا رہا۔ قوموں کے رہنماوئں کے فیصلے قوموں پر کس بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اس کی مثال کشمیر ہے کہ کیسے کیسے مواقع ہم نے ضائع کر دیئے۔ میرے دوست انوار قریشی نے ”محمد اسد بندہء صحرائی“ نامی کتاب عنایت کی، وہ صفحات پڑھ کر سنائے جن میں محمد اسد نے کشمیر کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔ میں اس کالم میں اسی کتاب کے بعض پیرا گراف نقل کر رہا ہوں۔
”لیاقت علی خان نے اپنی گفتگو میں آزادی کشمیر کی جس جدوجہد کا ذکر کیا تھا، وہ ہمیشہ میری اور ہر پاکستانی کی سوچ پر غالب رہی ہے، اس کی جغرافیائی، نسلی اور مذہبی وضع قطع کے باعث اس حسین و جمیل سرزمین کو لازماً پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم اور راوی) مغربی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار مکمل پر انہی دریاؤں پر ہے۔ ہندوستانی حکومت اور مہاراجا کے مابین اقرار نامہ کی وجہ سے ریڈ کلف نے صریحاً دھوکے بازی سے مسلمانوں کی اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندوستان کے حوالے کردیا اور ریڈ کلف کی یہ ”نوازش“ تقیسم ہند کے طے شدہ بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی تھی اور اسے کوئی پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی سربریدہ فوج کے سبب ہندوستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اس لئے قائد اعظم نے کسی فوجی مداخلت کے امکان کو بالکل رد کردیا۔ حکومت پاکستان کی اس واضح پالیسی کے بعد صوبہ سرحد اور افغانستان کے ملحقہ علاقہ کے پٹھانوں کے قبائل پاکستان کے نام پر کشمیر کو فتح کرنے چل پڑے۔
”اکتوبر 1947ء کو قبائلیوں نے حملہ کردیا، محسود، وزیری اور آفریدی قبیلوں کے بڑے بڑے جتھوں نے کشمیر کی سرحد عبور کرکے بارہ مولا اور مظفر آباد پر بلامقابلہ قبضہ کرلیا۔ سری نگر کے اردگرد جو فوج تعینات تھی اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ انہوں نے بھی بغاوت کردی اور پٹھان بھائیوں کے ساتھ کند ھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئے۔ قبائلیوں کی پیش قدمی جاری تھی اور سری نگر تک پہنچنا انہیں آسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس دوران میں ایک تکلیف دہ واقعہ زوپذیر ہوگیا۔ یہ قبائل اپنی صدیوں پرانی غارت گر ی کی جبلت پر قابو نہ پاسکے اور سرینگر کی جانب قدم بڑھانے کی بجائے انہوں نے مظفر آباد کے شہریوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ دو دون لوٹ کا یہ بازار گرم رہا۔ یہ بڑا نازک وقت تھا۔ جسے ان قبائلیوں نے ضائع کردیا، چنانچہ اس عرصہ میں ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی ملی بھگت سے جوابی حملے کے انتظامات مکمل کرلئے گئے۔ نئی دہلی میں برطانوی فوج کے تعاون سے ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل فوجی دستوں کو جلدی جلدی منظم کیا گیا، انہیں ہتھیار فراہم کئے گئے اور ایک ہلکے توپ خانہ کا بھی انتظام کردیا گیا،تاکہ وہ سری نگر پر قبضہ کرکے وہاں کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں لے آئیں۔ فوجی اور غیر فوجی جہازوں کے ذریعے ہندوستانی فوج کی خاصی بڑی تعداد کو سری نگر پہنچادیا گیا، جہاں سے وہ ریاست کشمیر کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا تسلط جمالیں۔ آہستہ آہستہ پٹھانوں کو نکال باہر کیا گیا اور ان کا جذبہ جہاد مدھم پڑتے پڑتے ختم ہوگیا۔
”تاہم کشمیرکی جنگ ختم نہیں ہوئی، نئے قبائلی مجاہد اور ناگزیر طور پر پاکستانی فوج کے دستے بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے، ہندوستان نے وادی کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا اور سرحد کے ساتھ ساتھ دور تک پناہ گاہیں اور خندقیں بنالیں۔ آج تک ہندوستان کشمیر کے اس حصہ پر قابض ہے، جو گلگت سے لداخ اور کارگل کے برفانی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ بالآخر پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ جہاں استصواب رائے کی قرار داد منظور کی گئی جو اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی، حکومت ہندوستان نے اس قرارداد کو بڑی بے دلی سے قبول کیا، کیونکہ یہ کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ اس قرارداد پر عملدرآمد کا نتیجہ پاکستان کی فتح ہوگا۔ چنانچہ ہندوستان حیلے بہانے سے بار بار اس مسئلہ کو ملتوی کرتا رہا۔ اب یہی مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے اچھے ہمسایہ ممالک جیسے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے سپاہی خندقوں میں بیٹھے ایک دوسر ے پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
“ایک اور جگہ وہ اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے ہیں۔ ”میجر جنرل صاحب مسکرائے ”آپ کو دیکھنا چاہئے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپخانہ کا نصف حصہ چھپابیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے تو پونچھ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا تو پخانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لئے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انہیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کردیا ہے، ان حالات میں ہندوستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی، اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ ان شا ء اللہ ہمارے لئے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
”میجر جنرل حمید کی اس پرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جونہی ہم واپس ہیڈ کوارٹرپہنچے، انہیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انہیں وزیراعظم لیاقت علی خان کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا کہ اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کردیا جائے۔ کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورت حال کا علم ہوا۔ ”ہندوستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جوں ہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملہ کا پتہ چلا۔ اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہروکو تمام صورت حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا کہ پاکستان کو ہر قیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندوستان کے لئے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا بھی ممکن نہیں۔ اگر انہیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور ضلع پونچھ ہندوستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیں گے۔
”تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم ایٹلی کو ہندوستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جو 1948ء کے آخر میں ہندوستان کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر اب انگلستان میں اپنی گزشتہ کامیابیوں پر شاداں اور فرحاں زندگی گزار رہے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امور مختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیر خارجہ محمد ظفر اللہ خان کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق رائے دہی کا یقین دلایا ہے اور ایٹلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لئے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت لیاقت علی خان سوئے تھے۔ ظفر اللہ نے انہیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انہیں ایٹلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔
”یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی، پونچھ میں ہندوستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جبکہ پاکستان نے ایک اور موقع کھودیا جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔ ”وزیراعظم کا حکم نامہ پونچھ کے گردونواح میں تعینات پاکستانی فوجیوں پر بم بن کر گرا۔ جب انہیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے۔ بہت سے افسر اور عام لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوؤں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انہوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہوگیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کشمیریوں کو موعودہ حق رائے دہی مل جائے گا۔ ”میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈ کوارٹر میں بند کرلیا، کئی مہینے میری ان سے ملاقات نہ ہوسکی، اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگئے“۔کالم کی طوالت کے سبب میں میجر جنرل اکبر خان (راولپنڈی سازش کیس والے) کے ساتھ اپنی کتاب ”پاکستان، سیاست اور جرنیل“ میں شائع شدہ انٹر ویو کو نقل نہیں کر رہا ہوں، یہ پھر کبھی کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔