بھمبر عوامی اتحاد تبدیلی کی ایک مثال
لگ بھگ دو برس قبل میں نے یورپ سے پلٹ کر اپنے آبائی علاقے میں خدمت کا سفر شروع کیا، جو ایک مشکل کام ہے۔ اپنے گھر والوں سمیت مختلف لوگوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ یورپ نہیں پاکستان ہے، یہاں کے لوگ لالچی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ، لیکن میں سوچتا یہ تھا کہ ہمارے لوگ جس معاشرے کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے خود بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور اکثر دیکھنے میں آیا کہ یہ جتنی صفات دوسروں کی بیان کرتے ہیں وہ ساری خیر سے اپنے وجود میں بھی رکھتے ہیں۔ یہ چکر کیا ہے؟ آہستہ آہستہ پتا چلتا گیا کہ اصل میں یہ چکر ہی تو ہے۔ جو ایک سرے سے شروع ہوتا ہوا دوسرے کونے تک پہنچتا ہے۔ ہر کوئی اس چکر سے نکلنا تو چاہتا ہے، لیکن اس کی ابتداء دوسروں سے کروانا چاہتا ہے۔ سب لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام ٹھیک ہو لیکن کوئی دوسرا کرے، سب چاہتے ہیں کہ جھوٹ اور منافقت ختم ہو لیکن خود سے ختم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ سچ اور حق کا راستہ اپنانے میں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اور کوئی بھی یہ نقصان برداشت کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اس خاکسار نے سوچا کہ کیوں نہ اس کی ابتداء مجھ سے ہو، یہی سوچ کر پانی میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے پہلا پتھر اٹھایا تو اپنے ہی گھر والوں نے سمجھایا کہ آپ اچھی بھلی خوشحال اور پر امن زندگی کو کیوں مشکلات میں ڈالنے پر تل گئے ہو؟ یہ خاردار راستہ ہے۔ اس میں مشکلات ہیں یہاں تک کہ اس میں جان کا خطرہ ہے آپ کو کچھ ہو گیا تو ہمارا کیا ہوگا؟
میں نے سوال کیا کہ پھر کون ہوگا جو یہ کام کرے گا؟ مزید کہا کہ کوئی اور بندہ ڈھونڈ لاؤ، جس کی زندگی میری زندگی سے کم قیمتی ہو؟ جس کو اپنے بچوں کا خیال نہ ہو؛ جس کو اپنے روز گار کی فکر نہ ہو، جسے گرمی سردی کی شدت کا خوف نہ ہو اور جو اپنی زندگی کو داؤ پر لگا سکتا ہو تو میں آرام سے اپنے گھر بیٹھ جاتا ہوں۔(بیرون ملک یا اندرون ملک)
مَیں جانتا تھا کہ میرے گھر والوں کو ایسا بندہ ملے گا نہ مجھے اس راستے سے روکیں گے…… تو بالآخر میری شریک حیات اور میری والدہ محترمہ نے نیم دلی سے ہار مان لی اور میں نے اپنے مشن کا آغاز اپنے گاوں سے کر دیا، پھر دوسرے لوگوں کے طنز و طعنے ملنا شروع ہوئے طرح طرح کے آوازے کسے گئے، کوئی میری اس کوشش میں چھپے عزائم کی تلاش کو نکلا تو کسی نے اس میں میرے فائدے ڈھونڈنے کا کام اپنایا۔ مختلف قسم کے پروپیگنڈے شروع ہوئے۔ میں اس تلاش میں رہا تھا کہ مجھے چند ایسے ساتھی میسر آجائیں جن کے ارادے نیک اور پختہ ہوں۔ اور وہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ پہلے مرحلے میں چند دوستوں سے قربت بڑھی اور کچھ حوصلہ ملا، یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کبھی مختلف لوگوں کی سوچ 100% مل جائے، لیکن جب سب مخلص ہوں اور معاشرے کی بہتری چاہتے ہوں تو پھر طریقہ کار میں فرق گفت و شنید سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ استقامت اور برداشت ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ اپنی بات کہنے کا حوصلہ اور دوسروں کی بات سہنے کی برداشت ہو۔ میں نے اس سفر کا آغاز تن تنہا کیا اور ہر جگہ ظلم کے خلاف دیوار بنا اور لوگوں کو انصاف دلانے کی کوشش کی۔
پھر کچھ ساتھی مل گئے جنہوں نے میرا حوصلہ بڑھا دیا۔ ہم نے باہم مل کر سوشل میڈیا پر ایک تحریک شروع کی اور ساتھ ساتھ زمین پر لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے، لوگوں کو انصاف دلانے اور امن قائم کرنے کے لیے آواز بلند کی۔ پھر ساتھی ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔ جس کا نام عوامی اتحاد اور پہلا پڑاؤ یکم ستمبر کو بھمبر میں تھا۔ جس میں ہزاروں لوگ والہانہ امڈ آئے اور اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی اتحاد کے اجتماع میں شرکت کی، لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ ہر بندہ پر جوش اور حقیقی تبدیلی کی آواز بن گیا۔ اور پھر کیا تھا بھمبر کے ہر کونے سے آواز اٹھی کہ بھمبر کا سیاسی جمود ٹوٹ گیا اور ہر طرف عوامی اتحاد کا نعرہ گونج اٹھا۔ اجتماع میں شامل لوگوں کا جذبہ دیدنی اور شعور واضح تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ذرا نم ہو تو بہت زرخیز ہے یہ زمین، ہمارے لوگ منافق ہیں۔ نہ جھوٹے ہیں۔ دھوکہ باز ہیں نہ لالچی ہیں۔ صرف نظام کی خرابیوں کے سبب مجبور ہیں اور اس جمود کو توڑنے کے متمنی بھی ہیں۔ صرف بارش کے پہلے قطرے کے انتظار میں تھے۔
بھمبر کی تاریخ میں مقامی سیاست کا یہ سب سے بڑا اور منظم جلسہ تھا۔ اور مقررین کی محدود تعداد نے بامقصد اور مدلل باتیں کر کے اجتماع کو اپنے سحر میں لیے رکھا اور آخری مقرر کی آخری بات تک لوگ پوری توجہ سے سنتے اور داد دیتے رہے۔ اب آگے عوامی اتحاد کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر منصوبہ بندی اور اپنی ایمانداری سے لوگوں کو منظم کر کے اس معاشرے کو بدعنوانی سے پاک کریں۔ اور نظام کی تمام خرابیوں کو درست کریں۔ لوگوں کی توجہ اب ہماری طرف ہے لہذا ان کی سوچ کو مثبت سمت دینا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ یہ پورے ملک کے لیے ایک مثال ہے کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، لیکن کوئی چیز مفت ملتی ہے نہ گھر میں بیٹھے بٹھائے ملتی ہے۔