جس کا کام، انجینئرز کی سفارشات مانیں، ہم دُعا کے طالب!

جس کا کام، انجینئرز کی سفارشات مانیں، ہم دُعا کے طالب!
جس کا کام، انجینئرز کی سفارشات مانیں، ہم دُعا کے طالب!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گھر میں مقید ہوئے کئی ماہ ہوگئے ابتدا کورونا وبا کے پھیلاؤ سے بچت کے لئے حفاظتی تدابیر کے حوالے سے ہوئی تھی۔ اِس دوران تو انتہائی مجبوری میں ہی باہر  نکلا گیا، وہ بھی ماسک اور سینی ٹائزرکے پورے اہتمام کے ساتھ اِس دوران ایک آدھ بار سیر صبح والے دوستوں سے بھی ملاقات کی،لیکن سماجی فاصلے والی شرط نے پھر سے گھر میں ہی رہنے پر مجبور کیا تو وہی سلسلہ شروع ہو گیا کہ کمروں کے اندر اندر پھر کر سیر والا چسکہ پورا کرتے اور ہدایت پر بھی عمل کر لیتے تھے، پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک  صبح نماز کے لئے اٹھتے وقت ذرا جلد بازی کی اور جھٹکے سے اُٹھ کر بستر سے نیچے اترے تو چیخ سی نکل گئی، اچانک کمر سے درد اٹھی اور پاؤں تک چلی گئی، خیال ہوا، ایسا اپنی غلطی سے ہوا ہے، چل پھر کر کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ ایسی بھی بات نہیں،یہ کوئی پرانی تکلیف پھر سے اُبھر آئی ہے جس کا انداز ہمسٹرنگ انجری والا ہے۔خیال تھا ایک دو روز میں ٹھیک ہو جائے گی۔

اللہ سے توبہ کر کے معافی بھی مانگی کہ انسان کی اپنی ہی غلطی یا کوتاہی سے پریشانی بھی آتی ہے، دو چار روز خود سے کوشش کی اور جب معاملہ جوں کا توں رہا تو منصورہ ہسپتال سے رجوع کیا، پروفیسر (آرتھوپیڈک) ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح معائنہ کے بعد فرمایا، فکر کی بات نہیں، ”مسلز“ کی تکلیف ہے جو ٹھیک ہو جائے گی۔ انہوں نے درد کش گولیاں تجویز کیں، ایک ہفتہ استعمال کے بعد جب درد  منت کش دوا   نہ ہوا،  تو ان گولیوں سے نجات حاصل کر لی، سوچا سیر اور  ورزش سے کوشش کی جائے،لیکن یہ بھی کام نہ آیا اور اب حالات نے پھر سے ”محبوس“ ہونے پر مجبور کر دیا کہ رہائی کے بعد بھی کہیں جا نہیں پا رہے۔ سیر صبح کی وجہ سے دوستوں کی محفل سے بھی محروم ہیں۔ منور بیگ مرزا کی دانش اور رانا حنیف صاحب کی طرف سے ناشتے کی پیش کش بھی نہیں سنی گئی،اب مجبور ہو کر آکو پنکچر کے ماہر ڈاکٹر اسماعیل کی خدمت میں حاضری دی،جو ہمارے ساتھی(برخوردار) عامر بھٹی کے دوست اور گھر تشریف لے آئے، ان  کے مطابق بھی یہ ”چھیاٹا یا سیاٹا“ درد ہے۔ اب میں کیا بتاؤں کہ سیر صبح نہ ہونے اور دوستوں سے بات چیت سے محرومی کتنی اذیت کا باعث ہے۔ بہرحال اللہ سے دُعا ہے کہ  وہ اِس سے نجات دلائے اور معمول کی سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔


آج یہ سب یوں لکھا، سوچا کہ بعض حضرات کے ان استفسارات کا جواب تحریر کر دیا جائے، جو روزانہ اس توقع کے ساتھ فون پر پوچھ لیتے ہیں،”آپ دفتر آ گئے“ اب تو ان سب احباب سے یہی گذارش  ہے کہ دُعا کریں کہ اللہ اِس تکلیف سے نجات عطا فرما دیں کہ دفتر آنے جانے اور سیر کا سلسلہ بحال ہو جائے۔
حالِ دِل کہہ لیا، اب کچھ احوال واقعی ہی کی بات  کر لی جائے، ملک بارشوں کی وجہ سے شدید مشکل میں گرفتار ہے، مرے کو مارے شاہ مدار کے مطابق ستم زدہ افراد زیادہ پریشان ہوئے، تاہم اس مرتبہ کراچی کے بڑے لوگ بھی دُکھ کا اظہار کرنے کے لئے احتجاج پر مجبور ہوئے اور یہ احتجاج ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے مکینوں نے کیا، سہراب گوٹھ کے کوٹھے گرے، ملیر ندی نے دھاوا بول دیا تو ڈیفنس کے گھروں میں بھی پانی داخل ہو گیا، اب قارئین! پوچھتے ہیں، غریب تو پسماندہ اور کچی بستیوں میں رہتے ہیں، ان کا تو مقدر ٹھہرا،لیکن ڈیفنس جیسے قیمتی  تر علاقے سے پانی کا اخراج کیوں نہیں؟


اس مسئلہ پر بہت کچھ کہا جا رہا، رائے دی جا رہی، الزام لگائے جا رہے ہیں اور ہر ایک کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ نکاسی  آب کے نالوں کی صفائی نہیں ہوئی اور تجاوزات نے یہ حال کیا ہے۔اس سلسلے  میں ابھی تک حقائق کی روشنی میں بات نہیں ہو پا رہی،اصل مرض کی تلاش کے بغیر ذمہ داری منتقل کی جا رہی ہے، حالانکہ مرض کی تشخیص نہ ہو تو علاج ممکن نہیں، ہم اپنے تمام تر تجربے کی بنا پر یہ عرض کرنے پر مجبور ہیں کہ حکومت کوئی بھی رہی، آمریت تھی یا جمہوریت، کسی بھی دور میں مرض کی تشخیص نہیں ہوئی، صرف کراچی نہیں، لاہور، راولپنڈی، پشاور، ملتان، حیدر آباد، سکھر اور ملتان سمیت ملک کے ہر شہر میں مرض تلاش کر کے علاج کی بجائے، ٹونے،ٹوٹکے استعمال کر کے مرض میں اضافہ کیا گیا۔ اصل بیماری کا اب تک بوجوہ پتہ نہیں چلایا جا رہا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی بھی شعبہ زندگی میں مستقبل کی منصوبہ بندی  نہیں کی گئی۔اس حکایت پر عمل کیا کہ انگریز سو سال کا منصوبہ بناتا۔ یورپی معہ امریکہ پچاس سال کی سوچتے، بنیاء آئندہ 15سال، سکھ سر پر آنے کے بعد ہم مسلمان نقصان اٹھانے کے بعد سوچتے ہیں، لیکن عمل پھر بھی صفر رہتا ہے، تو میرے بھائیو! واویلا الزام تراشی،اربوں کے اخراجات مستقل حل نہیں۔

براہِ کرم مرض تلاش کریں اور مرض یہ ہے کہ ہم نے آبادی میں مسلسل اضافہ کے باوجود اس سے پیدا مسائل کے حل کی منصوبہ بندی نہیں کی اور یہ ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ہے۔ اگر آپ نکاسی  آب اور برسات کی تباہ کاریوں کے بارے میں انجینئرنگ کانگرس، فوج کے شعبہ انجینئرنگ اور سول انجینئرز حضرات پر مشتمل ماہرانہ کمیٹی بنائیں تو یہ کمیٹی آپ کو بتائے گی کہ ہم نے قیام پاکستان سے اب تک نکاسی ئ آب کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام نہیں کیا۔ مطالبات اور دباؤ کے سامنے جھک کر سیوریج کی تنصیب اس طرح کی کہ پانی نکلنے کی بجائے رک کر رہ جائے۔ ایک فٹ قطر کے پائپ کے بعد چھ انچ قطر والا نصب کر دیا، اس کے علاوہ کوئی نیا برساتی پانی کے کے نکاس والا نالہ نہیں بنایا، جو انگریز چھوڑ گیا سی پر گذارہ کیا،بلکہ ان سب کو برساتی نالے کی بجائے سیوریج کے نالے بنالیا اور اس پر مستزاد یہ کہ ان پر بھی تجاوز کیا، بلڈنگوں کی تعمیر کے وقت بھی نکاسی  آب کی ضرورت اور راستے کو نہ دیکھا گیا،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اب بھی اس عرض پر عمل کیا جائے کہ انجینئرز کی رائے کے مطابق بے دردی سے نقائص دور کریں اور ہر شہر میں کریں۔

مزید :

رائے -کالم -