سید علی گیلانی اور تحریک کشمیر!

 سید علی گیلانی اور تحریک کشمیر!
 سید علی گیلانی اور تحریک کشمیر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

موت کا ذائقہ تو ہر کسی نے چکھنا ہے اور جو آیا اسے دنیا سے جانا بھی ہوتا ہے۔صحت اور طویل عمر کی دعا بھی مانگی جاتی، تاہم وہ دن تو آ ہی جاتا ہے، جب خالق حقیقی کے حکم کی بجا آوری میں فرشتہ اجل روح قبض کرتا ہے۔ حریت کانفرنس (کشمیر، زیر قبضہ بھارت) کے امیر اور حریت ہی کے لیڈر سید گیلانی کا وقت بھی آ گیا اور وہ اس خارزار دنیا میں 92برس گزار کر راہی ملک عدم ہوئے۔ آج ہمارے اخبار نے اپنی شہ سرخی میں ان کو بجا طور پر خراج عقیدت پیس کیا اور قرار دیا ”مجاہد لاثانی، سید علی گیلانی، خُلد آشیانی“ مرحوم کے لئے یہ بہت بڑا خراج عقیدت ہے۔ وہ رہتی دنیا تک ایک مجاہد کی حیثیت ہی سے جانے جائیں گے، جنہوں نے اپنی جان و مال آزادیء کشمیر کے لئے وقف کر رکھے تھے، دنیا میں جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما آنجہانی نیلسن منڈیلا کو ان کی طویل قید اور ثابت قدمی کے حوالے سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے،

تاہم سید علی گیلانی کی تاریخ حریت کسی سے کم نہیں۔ وہ تو اپنے ہی وطن میں اپنے ہی گھر میں گزشتہ بارہ سال سے اسیر تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی ان کو گھر سے باہر نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ یہ سید گیلانی ہی تھے جنہوں نے اس نظر بندی سے پہلے بھی کئی بار جیل کاٹی، تاہم ان کے پاؤں میں رتی بھر لغزش نہ آئی۔ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں درحقیقت پاکستان کی آواز تھے اور کسی تردد کے بغیر کہتے، ہم پاکستان کے اور پاکستان ہمارا ہے۔ یوں آزادی کشمیر کی تحریک میں ان کی یہی آواز توانا تھی، جس کے سامنے کوئی دیا نہیں جلتا تھا، سید گیلانی نے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی اور مرتے دم تک حریت فکر ہی کا ذکر اور ورد بھی کیا، اگرچہ بعض نامساعد حالات کی وجہ سے یہ تنظیم یا جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوئی، لیکن بھارت کی چیرہ دستیوں نے نہ صرف حریت کانفرنس کے دونوں حصوں بلکہ کشمیر کی دوسری تمام جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا تھا۔


جب سے بھارتی وزیراعظم مودی کی ہندوتوا سوچ کے تحت کشمیر (مقبوضہ) کی خود بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت ختم کی گئی، تب سے اب تک پورے جموں و کشمیر میں آزادی کی ایک نئی لہر آ چکی ہے، کشمیری نوجوان گلے سے یہ طوق اتار دینا چاہتے ہیں، بھارت سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوج کی کثیر تعداد عرصہ سے رکھی ہوئی ہے اور اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد آٹھ لاکھ تھی، اس میں گزشتہ دو سالوں کے درمیان کئی بار اضافہ کیا گیا اور اب یہ قریباً دس لاکھ کو چھو رہی ہے۔ پورا کشمیر محصور ہے اور لوگ گھروں میں بند، اس کے باوجود فکر حریت میں کمی نہیں آئی بلکہ جذبہ فزوں ہوا اور یہ سب برکت سید گیلانی جیسے رہنماؤں ہی کی بدولت ہے۔ بھارت جو کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتا اور اس کی رٹ لگاتا ہے۔ اس کی حکمرانی کی رٹ تو یہ ہے کہ لاکھوں فوجی اور پیرا ملٹری ٹروپس کے باوجود جذبہ سرد نہیں کر سکا اور زندہ گیلانی سے زیادہ اب اسے وفات پائے گیلانی سے زیادہ خطرہ تھا، مرحوم کی دنیا سے رخصت ہونے کی خبر کے ساتھ ہی بھارتی فوج کی اس تعداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا جو پہلے ہی سے مرحوم کی رہائش کے اردگرد تعینات تھی۔

کرفیو کا سماں پیدا کیا گیا اور مرحوم کا جنازہ قبرستان شہدا نہ لے جانے دیا گیا اور ان کی تدفین ان کے آبائی محلے ہی میں کرالی گئی اور جنازے میں بھی شرکت محدود کرکے صرف قریبی رشتہ داروں کو اجازت دی گئی، یہ سب کچھ کرنے والے بھارتی سورماؤں کو اندازہ ہی نہیں کہ سید کی آواز کتنی توانا تھی اور اب اس میں اور کتنی طاقت آ جائے گی اور ان شاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب مظلوم کشمیری اس جبر و استبداد سے نجات حاصل کر لیں گے۔
یہ مانا کہ طاقت کے بل پر بھارتی سورما کشمیر پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، لیکن یہ کیسا ہے کہ کشمیریوں کو دبا کر رکھنے کے لئے دس لاکھ سے زیادہ مسلح فوج اور پیرا ملٹری کی ضرورت ہوئی۔ اس کے باوجود یہ حریت فکر ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو ان جماعتوں اور راہنماؤں کا تعاون بھی حاصل نہیں ہے جو خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے سے پہلے تھی اور جو حضرات و افراد بھارتی پرچم تلے ریاستی انتخابات میں حصہ لے لیتے تھے۔ آج وہ بھی مخالف صف میں نظر آتے ہیں اور وہ بھی قید اور نظر بندی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔


اس یقین کامل کے ساتھ کہ خُلد آشیانی کی جدوجہد اور استقامت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی اور ان شاء اللہ ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، میں ذاتی طور پر مختلف نوعیت کے دکھ میں مبتلا ہوں، ایک تو عالمی بے حسی، خصوصاً مسلمان ممالک کی لاتعلقی تکلیف دیتی ہے کہ جانوروں اور مویشیوں کے تحفظ کو عالمی مسئلہ قرار دینے والے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مودی کی قصابانہ تحریک پر خاموش ہیں، کشمیری نوجوان مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، لیکن عالمی ضمیر ٹس سے مس نہیں ہوتا، چلیں یہ سب اپنی جگہ، لیکن ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے وہ پورا حق ادا کیا جو ہم پر واجب ہے، کیا ہماری سابقہ سے موجودہ حکومت تک کسی نے ایسا مربوط پروگرام مرتب کیا، جو دنیا کی اس بے حسی کے جمود کو توڑ سکے۔ دکھ ہے کہ ہم قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی بنا کر مطمئن اور یہ کمیٹی بیان دے کر اپنا فرض ادا کرتی ہے، آج کی دنیا کو جسے گلوبل ویلیج کہا جا رہا ہے، جگانے کے لئے کسی منتر جنتر کی ضرورت تو نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ میں کسی ایک تقریر سے کوئی فائدہ ہو سکتا ہے، آج جب افغان آزادی حاصل کر چکے کشمیر کی آواز اور بھی توانا ہو سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی مربوط پروگرام بنایا جائے جس کے ذریعے دنیا کی بند آنکھیں کھولی جا سکیں۔ میرے خیال میں ہمیں ماہرین پر مشتمل ایک کشمیر گروپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ کشمیر کمیٹی اور حکومت کا تعاون ہو اور یہ گروپ دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں کے تعاون سے ایک ایسی عالمی تحریک برپا کرے جو دنیا کے مردہ ضمیر کو جگا دے، یہی جناب گیلانی کو صحیح خراج عقیدت ہوگا اور ان کی روح مطمئن ہوگی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین!

مزید :

رائے -کالم -