ویکسین کو ہاں اور نون لیگ کو ناں! 

ویکسین کو ہاں اور نون لیگ کو ناں! 
ویکسین کو ہاں اور نون لیگ کو ناں! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جس طرح نون لیگ کی ہر چال واپس اس پرپلٹائی جا رہی اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں  جب سوشل میڈیا پر یہ نعرہ عام ہو جائے گا کہ ویکسین کو ہاں اور نون لیگ کو ناں کیونکہ ان دنوں بلاول بھٹو نے وہی اندازاپنائے ہوئے ہیں جو 2018 کے انتخابات سے قبل عمران خان نے اپنا لئے تھے۔ تب پاکستان کیا دنیا بھر میں کسی کو یقین نہ تھا کہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں مگر پھر چشم فلک نے جو کچھ دیکھا اس پر آج تک انگشت بدنداں ہوگی۔آج جب کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو اگلے وزیر اعظم ہوں گے تو ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف کا آج بھی وہی واویلا ہے جو 2018کے انتخابات سے قبل تھا۔ نہ ان کی اور نہ ہی مریم کی باتوں سے وہ امید جھلکتی ہے جو بلاول بھٹو کی پریس کانفرنسوں اور تقاریر کا خاصہ بنتی جا رہی ہے۔


اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نام پر 2021ء کے عام انتخابات میں وہی کچھ ہونا ہے جو 2018ء کے انتخابات میں ہوا تھا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، اوپر سے الیکٹرانک میڈیا بالخصوص اور پرنٹ میڈیا بالعموم آٹو پر چل رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میڈیا  حکومت وقت کو مشکل وقت دیئے ہوتا تھا، آج کل کے میڈیا پرسنز اور کالم نگاروں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ُاس زمانے میں تو لوگ جھک ہی مارتے تھے جو سمجھتے تھے کہ حکومت وقت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر وہ عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ آج کل کا میڈیا تو جب دیکھو اپوزیشن کے نعروں، دعوؤں اور پریس کانفرنسوں کی دھجیاں اڑانے میں مصروف نظر آتا ہے، خدا معلوم ایسا کرکے وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ 


اگر سب کچھ ایسے ہوتارہا تو وہ وقت دور نہیں جب عوام سمجھ جائیں گے کہ اس بار بھی نون لیگ کو ناں ہے اور نون لیگ مخالف کسی بھی سیاسی جماعت کو ہاں ہے۔  کیا نون لیگ یہ سب کچھ سمجھتی ہے یا پھر اپنی ڈگر پر لگی رہے گی؟ شہباز شریف جس قدر کوشش کرتے  ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو جائیں،  شیخ رشید اسی قدر ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اور تو اور اب  شہباز گل بھی ان سے استعفے کے طالب ہیں۔ گویا کہ پیغام دینے والے شہباز شریف کو بتار ہے ہیں کہ انہیں ان کی نہیں نواز شریف کی ہاں چاہئے۔ جب تک وہ ہاں نہیں ہوگی تب تک ان کی بھی دال نہیں گلے گی، خواہ وہ قومی حکومت بنا کر سب کو ساتھ ملا کر چلنے پر بھی تیار کیوں نہ ہوں؟ ویسے یہ بات شہباز شریف سے ضرور پوچھی جانی چاہئے کہ وہ قومی حکومت میں کیا اسٹیبلشمنٹ کو بھی حصہ دینے پر رضامندہیں یا اپنے بڑے بھائی کی طرح آئین میں مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔
بہرحال اس وقت تک تو ایسا ہی لگتا ہے کہ  حقیقی اور صاف شفاف انتخابات کا سوچنا محض وقت کا زیاں ہے، اس ملک میں ڈبوں میں پڑے ووٹ بدلے جاتے ہیں، آر ٹی ایس بیٹھ جاتا ہے لیڈر بھی بدل لئے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمرا ن خان جنرل یحییٰ خان سے بھی بڑھ کر نااہل ہیں؟ اگر ہیں تو کس برتے پر اقتدار میں نہ صرف اپنے پانچ سا ل پورے کررہے ہیں بلکہ اگلی بار پھر اس عہدے کے مضبوط امیدوار کے طور پر اپنے آپ کوپیش کرنے پر بضد ہیں۔ 


عوام کا حال یہ ہے کہ بلبلا رہے ہیں، مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں، کاروبار ی مندے پر فکرمند ہیں مگر ہلجل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں انقلاب لانا ہے  تو یہاں کے الیکٹرانک میڈیا کو بند کرنا ہوگا یا کم از کم ان چینلوں کو بند کرنا ہوگا جو اپنے آپ کو نیوز چینل قرار دیتے ہیں۔ نیوز کے نام اس ملک کے عوام کی جس طرح ذہن سازی ہو رہی ہے اس طرح توافغانستان میں خواتین کی بھی نہیں ہو سکی ہے کہ تھوڑی تعداد میں لبرل خواتین کو چھوڑ کر وہاں ابھی بھی برقعہ بوجھ نہیں ماناجا تا۔ مگر ہمارے ہاں تو نیوز چینلوں نے شرم اتار کر پھینک دی ہے اور ایسے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو کھڈے لائن لگادیا ہے جو چند سال پیشتر میڈیا کے ماتھے کا جھومر سمجھے جاتے تھے اور جن کے بے لاگ تبصرے اور سوالات سوچ کے نئے در واکرتے تھے۔ اب تووہی شام کو عوام کے سامنے جلوہ گر ہوسکتا ہے جس نے اپنی سوچ کو تالالگا دیا ہو  جن کو شام کو وقت نہیں ملا وہ صبح سویرے آٹھ بجے وہی ڈیوٹی سرانجام دینے پہنچ جاتے ہیں، خواہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، کوئی سنے یا نہ سنے!


جس طرح سے اداکارہ ماہرہ خان کو فارغ کرکے اس کی جگہ مہوش حیات کو پاکستان کی قومی ہیروئن قرار دیا جا چکا ہے اسی طرح پرانے صحافیوں کی جگہ ان کو لابٹھایاگیا ہے جن کی ساری صحافت کسی کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے یا پھر درمیان کی بات کرنے کے قائل ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور پاکستان کی سیاست کو اپنی مرضی کے معنی پہنا کر عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک رہے ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کا فلسفہ اسی طرح بے کار ثابت ہورہا ہے جس طرح بھٹو کا روٹی، کپڑا اورمکان کا نعرہ ثابت ہوا ہے اور اس کی جگہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے کو پذیرائی دلوائی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی جینوئن نہیں ہے، کچھ بھی اصلی نہیں ہے، کچھ بھی قابل اعتبار نہیں ہے،کچھ بھی قابل توجہ نہیں ہے،، بس ایک پروگرام ہے جو ہر دماغ میں فٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -