کوئی تو اسرائیل کو روک لے
اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی پر حملے جاری ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران وہاں 47 فلسطینی شہید ہوئے جن میں ایک سکول میں پناہ لینے والے 11 افراد سمیت دیر البلح کے قریب ایک کار میں سفر کرنے والے چار افراد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 40 ہزار سے زائد افراد شہید جبکہ دو گنا سے بھی زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیل پولیو کے قطرے پلانے کے لیے بھی جنگ بندی پر تیار نہیں ہے، پہلے خبرآئی تھی کہ وہ اس کام کے لئے تین روزہ جنگ بندی کے لئے تیار ہے لیکن پھر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے بیان جاری ہوا کہ اسرائیل صرف ویکسینیٹرز کے گزرنے کے لیے ایک انسانی راہداری کی اجازت دے گا اور ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جائے گی جہاں پر چند گھنٹوں کے لیے ویکسین کی اجازت ہو گی اور اس دوران وہ محفوظ ہوں گے۔ واضح رہے کہ غزہ میں چند روز قبل ایک دس ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی تھی، یہ غزہ میں 25 سال بعد رپورٹ ہونے والا پہلا پولیو کیس ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے قریباً ساڑھے چھ لاکھ بچوں کو پولیو ویکسینیشن کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کے اپنے لوگ اس جنگ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق تِل ابیب میں اسرائیلی شہریوں نے حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ کرنے پر زور دیا،وہاں لیبر یونین نے بھی عام ہڑتال کی کال دے دی ہے جس کی حمایت نہ صرف تل ابیب کی ٹیکنالوجی کمپنیاں، صنعتیں، مینیوفیکچررز ایسوسی ایشن کر رہی ہیں بلکہ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بھی اِس کے حامیوں میں شامل ہیں، اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے دھمکی دی ہے کہ ہڑتال کرنے والوں کو تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ اسرائیلی رہنما بینی گانٹز، جو کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کا حصہ تھے لیکن اب مستعفی ہو چکے ہیں، نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں اور اِس ناکام ترین حکومت کا خاتمہ کر دیں،اِس کے ساتھ ساتھ لاپتہ خاندانوں کے فورم نے بھی غزہ سے اپنے رشتہ داروں کی لاشیں ملنے کا ذمہ دار اسرائیلی وزیراعظم ہی کو قرار دیا ہے،اُن کا کہنا تھا کہ اگر نیتن یاہو کی حکومت حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کردیتی تو آج یرغمالی زندہ ہوتے۔ اسرائیل کی ٹریڈ یونین کے سربراہ نے اِس حوالے سے کہا کہ وہ اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب صرف اُن کی مداخلت ہی اُنہیں جھنجھوڑ سکتی ہے جنہیں جھنجھوڑے جانے کی ضرورت ہے، مغویوں کی رہائی کا معاہدہ صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں ہو پا رہا اور یہ ناقابلِ قبول ہے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل غزہ کے علاقے رفح میں 20 میٹر گہری زیرِ زمین سرنگ میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے چھ شہریوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ عرب میڈیا کے مطابق یہ مغوی اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے جن میں سے ایک امریکی جبکہ پانچ اسرائیلی شہری تھے۔ اِن مغویوں کی ہلاکتوں کی خبر کے ملتے ہی تِل ابیب سمیت اسرائیل کے کئی شہروں میں لاکھوں اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مظاہرین نے اِن چھ لاشوں کا ذمہ دار اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو قرار دیا جبکہ وزیر اعظم نے اِس کی ذمہ داری حماس پر ڈال دی۔ نیتن یاہو اپنی ضد اور اَنا میں اندھے ہو کر ساری بربادی اور جنگ بندی نہ ہونے کی ذمہ داری حماس پر ڈالے جا رہے ہیں۔ امریکی شہری کی لاش ملنے پر امریکی صدر بائیڈن بھی غمناک اور غصے میں ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما اِن جرائم کی قیمت ادا کریں گے۔ امریکی نائب صدر کے مطابق بھی امریکی خون حماس کے ہاتھوں پر ہے۔ دوسری جانب حماس رہنما عزت الرشیق نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ جن یرغمالیوں کی لاشیں ملیں وہ اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے، حماس قیدیوں کی زندگیوں کا بائیڈن سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے تو جنگ بندی تجاویز اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کر لیا تھا لیکن نیتن یاہو نے اِسے مسترد کر دیا، یرغمالیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار صرف اور صرف اسرائیل ہے۔
اسرائیل کو اِس وقت داخلی اور خارجی دباؤ کا سامنا ہے، یہ جنگ خود اسرائیل کے لیے پورس کے ہاتھیوں کی صورت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے، اب تک کی جنگ بندی کی تمام کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں، جب بھی جنگ بندی کی امید نظر آتی ہے کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ معاملات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔اب اسرائیل نئے مطالبات سامنے لے آیا ہے، تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے فلاڈلفی کوریڈور پر فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کی منظوری دے دی ہے جو بائیڈن فارمولے میں شامل نہیں تھی، اِس سے نویں بار جنگ بندی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔
امریکی اخبار کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ آئندہ چند ہفتوں میں غزہ میں جنگ بندی کا ایک حتمی سمجھوتہ پیش کرے گا اور اگر اس پر اتفاق نہ ہو ا تو امریکہ مذاکرات سے دستبردار ہو جائے گا، اِس معاہدے کے بارے میں مصر اور قطر سے بھی بات چیت ہو چکی ہے۔ امریکی شہری کی لاش ملنے کے بعد سے ایمر جنسی کی سی کیفیت ہے، ایک امریکی شہری کے ہلاک ہو جانے پر امریکی حکمرانوں کی آنکھیں اشک بار ہیں اور سخت ردِ عمل دیتے نظر آتے ہیں لیکن ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت پر ایسا ردِ عمل نہیں آیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی صدر یرغمالیوں کی لاشیں ملنے پر اتنے سیخ پا ہیں اور اتنے عرصے سے فلسطینیوں کا جوبے دریغ خون بہایا جا رہا ہے اس میں وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ہر انسانی جان قیمتی ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب،ملک یا قوم سے ہو، لیکن کیا انہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ ان کی اپنی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے، یرغمالی ان کے ہی پرتشدد حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے دوران یہاں تک کہ دو عظیم جنگوں میں بھی کسی ایک شہر میں اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی غزہ میں ہوئی ہے، یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے غزہ کی پٹی کو دنیا کا ”سب سے بڑا اور کھلا قبرستان“ قرار دیا جبکہ اقوام متحدہ کے کانفرنس برائے تجارت اور ترقی کے مطابق اگر اسرائیلی کارروائی فوری طور پر روک بھی دی جائے تو غزہ 2022 کی جی ڈی پی کی سطح 2092 تک ہی بحال کر پائے گا۔ غزہ میں چھ یرغمالیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی سفیر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے، یہی وہ اقوام متحدہ ہے جس کی قراردادوں پر عمل کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا، لیکن اب اس کی خواہش ہے کہ سلامتی کونسل غزہ میں یرغمالیوں کی صورتِ حال اور حماس کی مذمت کے لیے فوری اجلاس بلائے۔اس طرح تو اب تک 40 ہزار سے زائد افراد کی شہادت پر سلامتی کونسل کے ہزاروں اجلاس ہو جانے چاہیے تھے۔عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کرے، مظلوم کا ساتھ دے،ڈرا دھمکا کر حل نکالنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کریں۔کوئی تو اسرائیل کے بڑھتے قدم روک لے۔