مغلیہ خاندان کی تاریخ ہمارے ہاں تو کافی شد و مد سے پڑھائی جاتی ہے۔ ہم سابق برصغیر کا حصہ ہیں اور وادی ء کشمیر میں مغلیہ خاندان کی تعمیرات موجود ہیں جن کے بارے میں قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے فلم ڈراموں میں بھی میں بار ہا لفظ مگول سنا ہے۔ لیکن جو لفظ میں نے سنا وہ ذرا طنزیہ انداز میں بولا گیا تھا۔ ترقی یافتہ دنیا میں مغلیہ خاندان کا دور حکومت انتہائی منفی ضمن میں زیر بحث آتا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہمارے باس چھٹیوں میں انڈیا گیے اور واپسی پر کھانے کے وقفے پر بتانے لگے کہ وہ تاج محل کو اچھی طرح دیکھ آے ہیں۔ موصوف نے تاج محل کے فن تعمیر کا بہت تعریفی کلمات میں ذکر کیا اور تاج محل کی تعمیر کا پس منظر بھی بیان کیا۔ اصل میں میرے سارے کولیگز میں صرف میں ایشین تھا اور برصغیر سے تھا۔ چنانچہ تاج محل کا ذکر کرتے ہوے گویا وہ مجھ سے مخاطب تھے کہ آپ لوگوں کا فن تعمیر تاریخی اعتبار سے قابل تحسین ہے۔ میری کولیگز بولی کہ شاہ جہان نے تاج محل اپنی بیوی کی یاد میں بنایا تھا اور میری طرف یوں دیکھا گویا میں بھی مغلیہ خاندان کا چٹا پٹا ہوں۔ میری حوصلہ افزائی مجھے پرجوش کر ہی رہی تھی کہ میرے باس نے یہ کہہ کر ساری خواتین کولیگز میں مجھے ان پاپولر کردیا کہ شاہ جہان نے تاج محل اپنی تیرھو یں بیوی جو سب سے نو عمر تھی کی یاد میں بنوایا تھا۔ یہ بات میرے باس نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوے کہی تھی۔ میں جتنی تیزی سے اپنے کولیگز میں پاپولر ہوا اتنا ہی جلدی دھڑام سے نیچے آگیا تھا۔یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ مغلیہ بادشاہت ایک قدیم طرز حکومت تھا۔ جس میں گھوڑے تھے۔ تلواریں تھیں۔ دربار لگتے تھے۔ سائل کو سزا ئیں سنائی جاتی تھیں۔ اور کبھی کبھار انعام اور اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کوئی مغل بادشاہ پر کرپشن کے چارجز لگے ہوں اور عدالتوں نے نااہل قرار دیا ہو یا کوئی اور سزا سنائی ہو۔ چونکہ میں تاریخ کا طالب علم نہیں رہا ہوں اس لیے مغلیہ دور کے عدالتی نظام کے بارے میں میری معلومات بہت ناقص ہیں۔ بے شمار ناقدین کا خیال ہے کہ تاریخی مواد اور تصانیف غیر جانبدار نہیں ہیں۔ بلکل اسی طرح جس طرح آج کا میڈیا ورلڈ غیر جانبدار نہیں ہے۔ آئیے دور حاضر کی ایک ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قوم یا ملک یا سٹیٹ کا تقابلی موازنہ کرنے کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں موونگ چئیر مائنڈ سیٹ اور مجمعے کی چنگھاڑ دونوں رویے سٹیٹ اور ملک و قوم کے استحکام کو چیلنج کرتے ہیں۔
موونگ چئیر مائنڈ سیٹ سٹیٹ ایفی شنسی کو دیمک کی طرح کمزور کرتا ہے اسی طرح بہت پاور فل سپیکرز پر ایک دھاڑتا ہوا سیاستدان سٹیٹ اور ملک کو کمزور کررہا ہوتا ہے۔ دونوں کو لگام چاہیے۔ ترقی یافتہ اور خوشحال دنیا میں ان دونوں روش کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہم ایک پر جوش تقریر یا بے لگام تقریر کے بارے میں عرض کرتے چلیں کہ میں نے ترقی یافتہ دنیا میں کبھی بھی پرجوش تقریر یا بے لگا م تقریر یا بے ہنگم مجمع نہیں دیکھا۔ پر جوش تقریر کا مطلب ہے آپ اپنی تقریر یا گفتگو میں ہوش کھوتے جارہے ہیں۔ اس جوش یا غصے میں آپ دھمکی بھی دیتے ہیں۔ گالی گلوچ پر بھی اتر سکتے ہیں یا عوام کو کسی ایسی ڈگر پر اکسا رہے ہوتے ہیں جو سٹیٹ رٹ کو چیلنج کرے یا لا اینڈ آرڈر کو تھریٹ کرے۔ اگر صرف سٹیٹ آپ کا مواخذہ کرنے کا فیصلہ کرے تو آپ ا پنی تھوڑی سی غلطی کے باعث سزا یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر ترقی یافتہ دنیا میں آپ کے منہ سے غیر ذمہ دارانہ بات نکلی۔ آپ پھنس جائیں گے۔ آپ نے دھمکی دی۔ آپ پھنس گیے۔ آپ نے لوگوں کو ورغلایا آپ پھنس گیے۔
آپکو دنیا کے کسی بھی تسلیم شدہ بڑے فورم پر دھواں دھار، پرجوش اور چیخ و چنگھاڑ والی تقریر نہیں ملے گی۔ آپ کے پاس ایک مختصر وقت ہوگا۔ آپ نے فیکٹس اور فگرز کے ساتھ بہت احتیاط سے بات کرنی ہے۔ اگر آپ کی کمیونی کیشن سکل اور زبان اچھی ہے۔ آپ مختصر وقت میں اپنی بات کو اچھا بیان کردیں گے۔ آپ کی بات ریکارڈ ہوجاے گی۔ برسوں اور عشروں کے بعد بھی آپ کی بات ریکارڈ پر رہے گی۔ تو کیا آپ کی بات میں جوش،غصہ اور جھاگ گرانے کی گنجائش ہوتی ہے؟ ہاں اگر سامعین سارے درخت اور پتھر ہوں۔ پھر تو ٹھیک ہے۔ ورنہ آج کی مارڈن دنیا میں یہ جھاگ گرانے والی تقریر اور سیاست ایک قدیم اور فرسودہ مائنڈ سیٹ ہے۔ مجمع میں لوگ اکثر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ انکی ایجی ٹیشن سرگرمی یا سیاست مجموعی طور پر انکے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی یا نقصان دہ ثابت ہوگی؟
ہمارے خیال میں انسان بنیادی طور پر دنیا کے جس خطے سے تعلق رکھتا ہو اپنی نیچر میں دنیا کے کسی دوسرے خطے کے انسان سے مختلف سوچ اور مائنڈ سیٹ تو رکھتا ہے لیکن بنیادی جبلیً تقاضے اور رویے یکساں ہی ہوتے ہیں۔ ہماری رایے میں قدیم طرز طریق سٹیٹ ایفی شنسی بڑھا نہیں سکتا اسے دیمک کی طرح کھاتا رہتا ہے۔ ایجی ٹیشن کی سیاست یا عوام کا بے چین اور بے قابو ہوجانا عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلا ت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور ایک یا دوسری سٹیٹ یا ملک کی تخریبی حکمت عملی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً عوام اگر اپنے ذاتی یا اجتماعی مسائل جن کو وہ مسائل گردانتے ہیں کی وجہ سے ایک فرسٹیشن کا شکار ہیں۔تو ایک مخالف سٹیٹ کو عوام کی اس فرسٹیشن کو ایکسپلائٹ کرنے کے لیے اپنے جی۔ڈی۔پی کا یا بجٹ کا بہت ہی معمولی حصہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیا عوام کو اس بات کا ادرا ک ہے کہ ایف۔اے۔ٹی۔ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کو کس نے ڈلوایا؟ پاکستان کتنا عرصہ اس لسٹ میں رہا؟ ظاہر ہے انڈیا نے لابنگ کی تھی۔ اور اس سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا؟ سرمایہ کاری کو کس قدر دھچکا لگا ۔ معیشت اگر خراب ہوئی ہے تو اس کا سارا الزام عوام کس کو دے رہے ہیں؟ عوام کا مسلہ یہ ہے کہ بہت جلد حقائق بھول جاتی ہے۔ عوام کے مسائل یا بڑھتے ہوے مسائل کے مضمرات کا تسلسل مختصر نہیں ہوتا۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔