سمگل شدہ اور جعلی سگریٹوںکی فروخت رکوانے کیلئے عدالتوں سے رجوع کیاجائیگا
اسلام آباد(این این آئی)پاکستان میں سگریٹ ساز اداروں کے مالکان نے سمگل شدہ اور جعلی سگریٹس کی فروخت رکوانے کیلئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں سمگل شدہ اور جعلی سگریٹ کی فروخت رک جائے تو قومی خزانے کو سالانہ 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔گزشتہ روز سگریٹ مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں حاجی جان بہادر خان ، دلاور خان، شیراز باچہ ، فرحان مسعود، حاجی شیر بہادر خان، پاکستان ٹوبیکوکمپنی کے نمائندے جاوید خان اور فلپس مورس انٹرنیشنل کے نمائندے ناصر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سگریٹ ساز کمپنیاںتقریبا 75ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کرتی ہیں جبکہ فاٹا، پاٹا اور آزاد کشمیر میں تقریباً 25 فیکٹریاں جعلی سگریٹ تیار کر کے مارکیٹ میں پھیلاتی ہیں جن کو روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کئے جاتے جبکہ اس کے علاوہ ملک بھر میں سمگل شدہ سگریٹوں کی فروخت بھی کھلے عام جاری ہے اور انکے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جس کے باعث قومی خزانے کو سالانہ 75 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ایف بی آر کے چیئرمین نے سگریٹ کے پیکٹوں پر ٹیکس سٹیمپ لگانے کا نیا حکم دیا ہے جس پر ہم تیار ہیں مگر سمگل شدہ اور جعلی سگریٹ جب مارکیٹ میں فروخت ہونگے تو وہ دکاندار سے برآمد ہونے کی صورت میں جو کمپنیاں قانونی سگریٹ بنا رہی ہیںانکے مالکان کیخلاف کارروائی کی جائیگی اور انکے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج ہونگے۔
جبکہ ان مالکان کا جعلی سگریٹ کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایف بی آر کے چیئرمین نے اپنی کسی منظور نظر کمپنی کو نوازنے کیلئے ٹیکس سٹیمپ لاگو کرنے کا اقدام کیا ہے مگر انہیں اس کے ساتھ ساتھ جعلی سگریٹ کی فروخت کو روکنے کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں اور اگر کسی جگہ سے کوئی جعلی سگریٹ برآمد ہوتے ہیں تو ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کے بجائے ان فیکٹری مالکان کیخلاف کارروائی کی جائے جو قبائلی علاقوں اور کشمیر میں فیکٹریاں لگا کر یہ جعل سازی کر رہے ہیں اور معروف برانڈ کے جعلی سگریٹ بنا کر فروخت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے ہم سے ملاقات کرنے سے ا نکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سال قبل ڈسٹرکٹ سیشن جج پشاور نے ہماری درخواست پر ایف بی آر حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ کارخانو بازار پشاور سے جعلی سگریٹ کے خاتمے کو یقینی بنائیں مگر اس عدالتی حکم پر ٹیکس کلیکٹر پشاور کوئی عمل نہیں کر سکے اور کارخانو بازار میں جعلی اور سمگل شدہ سگریٹ کی فروخت کھلے عام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جعلی اور سمگل شدہ سگریٹ کی فروخت رکوانے کیلئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جائے تاکہ ملک کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔ سگریٹ ساز اداروں کے مالکان نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔