حال ہی میں اپنے موضوع پر پہلی لیکن ایک معرکہ آراءکتاب "قانون دان اقبال"شائع ہوئی ہے جس کے مصنف ظفر علی راجا، قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستندمحقق ، شاعر ، ادیب اور ڈیڑھ درجن سے زائد کُتب کے مصنف ہیں ۔ اپنی اس تازہ کتاب میں "عرض مصنف "کے تحت وہ لکھتے ہیں کہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب "اقبال اور اُس کا عہد "میں لکھا ہے کہ "اقبال کی شخصیت ایک جلوہ ¿ صد رنگ، بلکہ جلوہ ¿ ہزاررنگ کا مرقع ہے ۔ لیکن کو تاہ بین نگاہوں نے صرف ایک ایک پہلو دیکھا ہے ۔ اور وہ بھی نامکمل طور پر ۔ اگر ایک پہلو پر بھی پورے خلوص اور جامعیت کے ساتھ نظر ڈالی جاتی تو ہندوستان کی تمدنی فضا آج سے بہت مختلف ہوتی "۔ اور پھر اسی کتاب کے "پیش لفظ"میں فرزند اقبال ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، لکھتے ہیں "علامہ اقبا ل نے 1908میں لند ن سے بیر سٹری کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے اسی سال اکتوبر کے مہینے میں چیف کورٹ (موجودہ لاہور ہائی کورٹ)میں بطور وکیل اپنا نام رجسٹر کروایا اور سرکاری ملازمت کے ایک سے زائد پر کشش مواقع پر اس آزاد پیشے کو ترجیح دیتے ہوئے وکالت کو ذریعہ ¿ روزگار بنایا۔ بیرسٹر علامہ اقبال نے 26سال تک بطور وکیل کام کیا اور آغازِ وکالت میں 4سال تک اُس وقت کے سب سے معتبر قانونی رسالے "انڈین کیسز"کے عملہ ادارت میں بطور واحد مسلمان مدیر شریک رہے۔ اقبال کے 26سالہ وکالتی کردار پرآج تک کوئی کتاب یا ایسا تحقیقی کام نہیں ہو سکا تھا جو اقبال کی بطور ایک قانون دان مصروفیات، معمولات، اسُلوب ِوکالت، عدالتی کارکردگی، قانون فہمی ، اسلامی آئین و قانون کے حوالے سے اُن کے فکر و فلسفہ اور ہندوستان میںمسلم معاشرتی اصولوں سے متضاد قوانین پر اقبال کی فکرکو اُجاگر کرتا "۔مندرجہ بالا دونوں اقتباسات حقیقت ِ حال کی بہت ہی درست عکاسی کرتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ مجھ سمیت پڑھے لکھے لوگوں کی غالب اکثریت علامہ اقبال کی شاعری ، فکر و فلسفہ اور اُن کی عظمتوں کی معترف ہونے کے باوجود اُن کی زندگی کے اس پہلو کا کوئی واضح اِدراک نہیں رکھتی۔ علامہ اقبال کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا ،اور بہت کچھ لکھا گیا، یا تو اُن کی شاعری اور اُس کی افہام و تفہیم پر لکھا گیایا پھر اُن کے فلسفہ و فکر کی تشریح و ترویج پر ۔ اس سب لکھے ہوئے سے ایک عمومی تاثر جوبنتا ہے وہ یہی ہے کہ علامہ اقبال ایک نابغہ ¿ روزگا ر، انتہائی تعلیم یافتہ اور اعلیٰ پایہ کے شاعر اور فلسفی تھے ،جو ہمہ وقت صرف مسلمانان ہند بلکہ تمام مسلمانان عالم کی زبُوں حالی پر کُڑھتے اور اُن کی ترقی و سدھار کے بارے میں سوچتے رہتے تھے ۔اور اپنی سوچ کا اظہار اپنی شاعری اور وقتاً فوقتاً اپنی تقاریر اور خطبوں کے ذریعے کرتے رہتے تھے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ اس قدر، جامع، متنوع ، ہمہ پہلو اور ہمہ گیر ہے ، اور اُس پر اِس قدر لکھا جا چکا ہے کہ اگر کوئی بندہ ¿خدااس کے کسی ایک پہلو کا مطالعہ اور اُس پر غور و فکر شرو ع کردے تو اُس کے پاس اُن کی ذات کے کسی اور پہلو کی طرف متوجہ ہونے کا نہ دھیان رہتا ہے نہ فرصت۔ بندہ اس موضوع کی گہرائیوں اور گیرائیوں میں کچھ اس طرح گم ہو جاتا ہے کہ اس سے باہر نہیں نکل پاتا۔ اُس کا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ آخرعلامہ اقبال کھاتے کہاں سے تھے ؟ اُن کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا تھا، اُس کا کیا ہوا؟ انہوں نے کبھی پریکٹس کی یا نہیں ؟
لیکن ظفر علی راجا ایڈوکیٹ کا دھیان اس طرف چلا گیا اور پھر انہوں نے علامہ اقبال کی بطور قانون دان تلا ش و دریافت کا بیڑہ اٹھا لیا ۔ وہ اس راہ کے پہلے مسافر تھے۔ اِس سفر میں انہیںجوجوآسانیاں اورمشکلات، جوجو حوصلہ ا فزائیاں اورحوصلہ شکنیاںاور جو جو تعاو ن اوررکاوٹیںپیش و درپیش ہوئےں،اُ س کا ذکر انہوں نے "عرض مصنف "کے عنوان کے تحت تفصیل سے اپنی اس کتاب میں کیا ہے، اور وہ پڑھنے کے لائق ہے ۔ یہ ساری کتاب کا گویا نچوڑ ہے ۔ کتاب بتاتی ہے کہ علامہ اقبال نے1897میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور پھر اسی کالج میں ایم اے فلسفہ کی کلا س میں داخلہ لے لیا۔ ایم اے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصہ میں قائم لاءکالج میں بھی داخلہ لے لیا۔1899میں اقبال نے ایم اے فلسفہ کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کر لیا۔ لیکن فلسفہ کے بے حد توجہ طلب مضمون نے اُن کو وکالت کا امتحان نہ پاس کرنے دیا، جس کااُنہیں بہت قلق رہا ۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہورمیں ہی پروفیسر ی کرنے کے بعد علامہ اقبال بالآخر اکتوبر 1905میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے عازم ِلندن ہوئے اور سال کے آخر تک پہلے ٹر ینٹی کالج کیمبرج اور پھر لندن کے مشہور و معروف ادارے " لِنکنز اِن "میں قانون کی کلاس میںداخلہ لے لیا۔ ابھی بیرسٹری کا کورس مکمل نہیں ہوا تھا کہ اقبال کو جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے داخلہ مل گیا اور اس امر کی بھی اجازت مل گئی کہ وہ لندن میں رہتے ہوئے اپنا مقالہ انگریزی میں ہی تیار کرکے بھیج سکتے ہیں ۔یوں اقبال بیک وقت تین تعلیمی اداروں سے منسلک ہوگئے۔انہوں نے جون 1907میں کیمبر ج یونیورسٹی سے بی اے، جولائی 1907میں میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور جولائی 1908میں" لِنکنز اِ ن " لندن سے بیرسٹرایٹ لاءکی ڈگریاں حاصل کیں ۔اور اس کے بعد کوئی وقت ضائع کئے بغیر اسی مہینے ہندوستان واپسی کا سفر اختیار کیا۔ واپس آتے ہی اکتوبر 1908میں چیف کورٹ لاہور میں اپنے آپ کو بطور وکیل رجسٹر کروایا اور وکالت کا باقاعدہ آغاز کر دیا جو 1934تک چلتا رہا ۔
جس وقت بیر سٹراقبال نے وکالت کے میدان میں قدم رکھا،عدالت عالیہ کی بار میں سر میاں محمد شفیع ، جسٹس شاہ دین ، سر میاں فضل حسین ، جسٹس شادی لال ، بیرسٹر جلال الدین ، بیرسٹر سر شہاب الدین ،لالہ لاجپت رائے ، پنڈت شیو نارائن شمیم ، پیر تاج الدین جیسے قانون کے درخشندہ ستارے جگمگا رہے تھے۔
ظفر علی راجا نے کتاب میںہندوستان کے ان چوٹی کے وکلاءکے نام درج کئے ہیں جن کے درمیان اور جن کے مد مقابل علامہ اقبال اپنے وقت کے قابل ترین ججوں کی عدالتوں میں مقدمات لڑتے رہے اور اپنے آپ کو منوایا ۔ کسی بھی وکیل کے لئے یہ ایک اعزاز ہوتا ہے کہ اُس کا لڑا ہو ا کوئی مقدمہ قانون کی کتابوں یا رسائل میں رپورٹ ہو۔ یہ عموماًاہم نوعیت کے کیسز ہوتے ہیں جن میں کوئی خاص قانونی نکتہ یا موضوع زیر بحث آتا ہے اور اس پر عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے ۔ یہ فیصلے بعد میں وکلاءبطور نظیر عدالتوں میں اپنے حق یا مخالفت میں پیش کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں کتنے وکیل ہیں جن کا سارا کیرئیر اسی حسرت میں تمام ہوجا تا ہے کہ اُن کا کوئی کیس رپورٹ ہو جائے ۔ مصنف انتہائی باریک بینی اور عرق ریزی سے ستّر اسّی سال پرانی سینکڑوں کیس فائلو ں کی ورق ورق گردانی کر کے بیرسٹراقبال کے لڑے ہوئے ایسے 103مقدمات کی ایک فہرست تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنی کتاب میں لاتے ہیں جو رپورٹ ہوئے ۔ ان میں سے نصف سے زائد بیرسٹراقبال نے جیتے ۔
مصنف صرف یہیں بس نہیں کرتے بلکہ دوران وکالت بیرسٹر اقبال کے معمولات، بار روم کی محفلوں اور اپنے منشیﺅں ، کلائنٹس اور جونیئر و سینئر وکلاءکے ساتھ تعلقات کا بھی تفصیلاً تذکرہ کرتے ہیں ۔پھر اُن کے عدالتوں کے باہر مختلف اداروں اور تنظیموں کو دئیے گئے قانونی مشوروںاور رہنمائی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔اولاًمجلس قانون سازپنجاب کے ایک ممبر کے طور پر ٹیکسوں میں کمی اور فلاح عامہ، قومیتوں کے آئینی اور قانونی حقوق ، مذہبی توہین کے خلاف قانون ، ملازمتوں میں کوٹہ، تقسیم اراضی بحق مزارعین ،لگان اورمالیہ کے قوانین، خواتین کے لئے طبی سہولیات اور ابتدائی تعلیم، انکم ٹیکس اور ڈیتھ ڈیوٹی وغیرہ جیسے بے شمار قوانین اور مسودہ ¿ قوانین پراُن کے بحث و مباحثہ اور ان کی منظوری میں اُن کے کردار کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مجوزہ اور رائج قوانین مثلاً گوکھلے کے تعلیمی مسودہ ¿ قانون ، اشتراکی نظریہ اور قوانین، سیاسی جماعتوں کے دساتیر، اخبارات اور آزادی ¿ اظہار کی حدود، سر جان سائمن کے آئینی کمیشن، کمیونل ایوارڈ، گورنمنٹ آف انڈیا بل اور دفعہ 304تعزیرات ہند، قانون ہند 1935، مسجد شہید گنج اور مسودہ ¿ قانون تحفظ مساجد، سکند ر جناح معاہدہ، مسلم لیگ کے آئین اور اِس طرح کے بے شمار دیگر قانونی معاملات و موضوعات پر بیرسٹر اقبال کی نقدوجرح اور تجاویز کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔ پھر اسلامی قانون کے بنیاد ی ماخذ،اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین اورقانون توہین رسالت پراُن کے خیالات کا مفصل ذکر کر تے ہیں ۔ مصنف "قانون اسلام کی جدید تدوین ، حسرت ناتمام"کے عنوان سے ایک الگ باب میں بیرسٹر اقبال کی اسلامی قوانےن کی تجدیدنو کے بارے میں خواہشات، تجاویزاور اُس بارے کوششوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں، جو بطور خاص ہی پڑھنے کے لائق ہے ۔
مختصراً ،"قانون دان اقبال"میں ظفر علی راجا ایڈوکیٹ نے بہت محنت ، محبت اور دماغ سوزی کے ساتھ علامہ اقبال کو بطور قانون دان ڈھونڈ نکالا ہے اور اُن کی شخصیت کے اس پہلو کوبڑی تفصیل کے ساتھ عوام الناس کے سامنے رکھ دیا ہے ۔اور سب سے اہم یہ ہے کہ کوئی بات بغیر مصدقہ حوالے کے نہیں لکھی۔ایک عظیم شاعر، ایک عظیم مفکر ، ایک عظیم فلسفی اور ایک عظیم مصلح کے ساتھ ساتھ اقبال کی شخصیت کا یہ پہلو بھی بہت متاثر کن ہے ۔ صاحب کتاب کا کمال یہ ہے کہ انتہائی دقیق اور خشک موضوع کو انہوںنے اتنی خوبصورتی اور سلاست کے ساتھ لکھا ہے کہ قار ی ذرا سی بھی بوریت محسوس کئے بغیر اورکسی بھی جگہ ذرا سا بھی جھٹکا کھائے بغیر روانی کے ساتھ ان کی کتاب کوپڑھتا چلا جاتا ہے اور ایک نئے موضوع پر ا س قدر متنوع ،اِ س قدرزیادہ اور اس قدرمصدقہ معلومات ایک جگہ دیکھ کرششدر رہ جا تا ہے ،اور ساتھ ساتھ افسوس بھی کرتا ہے کہ یہ کام اس قدر تاخیر سے کیوں ہوا۔ اس سے پہلے یہ کام کسی اور نے کیوں نہیں کیا ۔ کوئی اور یہ کام کر بھی کیسے سکتا تھا۔ قدرت نے توقانون دان اقبال کی دریافت کا یہ اعزاز ،اقبال کے شیدائی ایک قانون دان ظفر علی راجا کے مقدر میں لکھ رکھا تھا۔