ایران اور امریکہ جوہری معاہدہ
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان بالآخر ایران کے جوہری معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق رائے ہو گیا، جس کواسی سال 30 جون تک حتمی شکل دے دی جائے گی۔اس معاہدے کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی کم کر دے گا اور آئندہ پندرہ سالوں میں3.67فیصد سے زیادہ یورینیم کی افزودگی نہیں کر سکے گا۔ایران آئندہ پندرہ سالوں میں اپنے موجودہ دس ہزار کلو گرام یورینیم کے سٹاک کو بھی تین سو کلوگرام تک کم کرنے کا پابند ہو گا۔اس معاہدے کے بعد ایران کا ایٹمی پروگرام محدود ہو جائے گااوروہ ہتھیار بنانے کے قابل پلوٹونیم افزود نہیں کر سکے گا۔معاہدے کی شرائط کے مطابق ایران اپنے سینٹری فیوجز میں دو تہائی کمی کرتے ہوئے ان کی تعداد صرف 6 ہزار کرے گا جبکہ ا س وقت ایران کے پاس لگ بھگ 19 ہزار سینٹری فیوجز موجود ہیں ۔ ایران اگلے پندرہ سالوں تک اس سے متعلق مزید کوئی تحقیق بھی نہیں کر سکے گا۔اس معاہدے کے بدلے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں مرحلہ وار ختم کی جائیں گی، یورپی یونین کے مطابق پابندیوں کا خاتمہ آئی اے ای اے کی تصدیق کے ساتھ مشروط ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کو خدشہ تھا کہ ایران جوہری بم بنانے میں مصروف ہے،اسی خدشے کے پیش نظر ایران پرسنگین پابندیاں عائد کر دی تھیں جو کہ ایران کی معاشی خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں۔ ایران اب مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کر کے ان پابندیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا، اس غرض سے ایران نے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں پی فائیو پلس ون ممالک سے مذاکرات کئے۔پی فائیو پلس ون چھ ممالک کا گروہ ہے جس میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبر چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں اور پلس ون جرمنی ہے۔اصولی طور پر یہ مذاکرات 31 مارچ کو ختم ہونا چاہئے تھے لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے حتمی مہلت میں توسیع کرنا پڑی اور پھر2 اپریل کو اتفا ق رائے ہو ہی گیا۔ایران اوران چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات 2006 ء میں شروع ہوئے تھے یعنی فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں نو سال لگ گئے،اسی دوران امریکہ اور یورپی یونین نے ایران پرپابندیاں بھی عائد کر دی تھیں جنہیں ایران نے انسانیت کے خلاف قرار دیا۔جون 2010ء میں امریکی ایوان نمائندگان نے ایران کے خلاف تفصیلی پابندیوں کا ایکٹ پاس کیا تھاجسے جولائی 2010ء میں امریکی صدر کے دستخط کرنے کے بعد قانون کی شکل دے دی گئی تھی۔ اس ایکٹ کے تحت ایران پرپابندیاں انتہائی سخت کر دی گئیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے علاوہ مختلف ممالک کی جانب سے بھی ایران پرمختلف پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
اس معاہدے پر ایران کے مخالفین خصوصی طور پر اسرائیل واویلا مچا رہے ہیں اور ان کا شور مچانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے، اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے معاہدہ مسترد کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ کوئی بھی معاہدہ ہو، اس میں ایران کے جوہری پروگرام کی صلاحیتوں کو خاصی حد تک رول بیک کرنا ہو گا، اس کی دہشت گردی اور جارحیت کو ختم کرنا لازمی ہو گا۔انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ ایران کے خلاف فوجی ایکشن سمیت تمام آپشن کھلے ہیں لیکن صدر اوبامہ کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں نیتین یاہو سے بات کریں گے۔امریکی صدر بارک اوباماکا کہنا تھاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ خوش آئند اورتاریخی نوعیت کا ہے۔ امریکی صدر کاکہنا تھا کہ ایران کئی دہائیوں سے یورینیم کی افزودگی کر رہا تھا اور صرف اسی سمجھوتے سے ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے گا۔معاہدے کے فریم ورک کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ معاہدے کا فریم ورک طے کر لیا گیا ہے اور معاہدے کے تحت ایٹمی پروگرام کا معائنہ بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والا معاہدہ طویل مدت کا ہو گا اور اگر ایران نے دھوکا دیا تو پوری دنیا کو معلوم ہو جائے گا۔بارک اوباما کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے مطابق 10 سال تک ایران کوئی ایٹمی ری ایکٹر نہیں بنا سکے گا اور نہ ہی کوئی پلوٹونیم بم بنا سکے گا۔باراک اوباماکا کہنا تھا کہ اس عبوری معاہدے سے ان کے مقاصد پورے ہو گئے ہیں۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ خوش آئند ہے،اس معاہدے کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں سے موجود تلخی میں بھی کمی آئے گی، دونوں کے درمیان باہمی تعلقات کا آغاز ہو گا اور ایران پر غیر ملکی سرمایہ کاری کا دروازہ کھل جائے گا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی معمول پر آ جائیں گے،پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا جو منصوبہ التوا کا شکار ہے، امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اس میں بھی پیش رفت ہو سکے گی۔اس معاہدے کے بعد یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ مسائل کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوں،حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں،ان کا حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے، جنگ اور دشمنی تباہی کاہی سبب بنتے ہیں۔عرب ممالک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ایران، امریکہ اورمغربی ممالک کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے، تو پھرسعودی عرب ، ایران اور دوسرے عرب ممالک مل کرایسا کوئی لائحہ عمل کیوں مرتب نہیں کر سکتے؟ان ممالک کو بھی ایک میز پر بیٹھ کر اپنے تنازعات حل کر لینے چاہئے تاکہ مشرق وسطیٰ میں صحیح معنوں میں امن قائم ہو سکے۔