حکومت ہائیکورٹ کے جج کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، فل بنچ
لاہور (نامہ نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی قانونی حیثیت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت ہائیکورٹ کے جج کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، بنچ نے حکومت کی درخواستوں پر بننے والے جوڈیشل کمیشنز کی تشکیل کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر سیکرٹری وزارت قانون کو 10 اپریل کوطلب کر لیاہے۔مسٹر جسٹس خالد محمود خان پر مشتمل فل بنچ نے ماڈل ٹاؤن کمیشن کی تشکیل کو غیرآئینی قرار دینے کے لئے دائر قمر سہیل کی درخواست پر سماعت شروع کی تو وفاقی حکومت کی طرف سے سٹینڈنگ کونسل حنا حفیظ اللہ خان اور نصر احمد نے بنچ کو بتایا کہ وزارت قانون ابھی تک حکومت کی درخواست پر آج تک بننے والے تمام جوڈیشل کمیشنز کی تشکیل کا ریکارڈ اکٹھا نہیں کرسکی کیونکہ یہ ریکارڈ مختلف وزارتوں کے پاس ہے جس پرفل بنچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ عجیب بات ہے کہ وزارت قانون کے پاس اپنا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے ، بنچ ایک ماہ سے ریکارڈ مانگ رہا ہے مگر اسے ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا جس سے لگتا ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی نہیں بلکہ وانا کی ہے ، پتہ نہیں یہ ملک کیسے چل رہا ہے، وفاقی حکومت اگر اپنا ریکارڈ نہیں سنبھال سکتی تو وہ 20کروڑ عوام کا ملک کیسے چلا رہی ہو گی، فاضل بنچ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کمیشن کے سربراہ نے انکوائری کے دوران ہوم سیکرٹری سے ریکارڈ مانگا مگر حکومت نے نہیں دیا، اس موقع پر ماڈل ٹاؤن کمیشن کے سربراہ کو انکوائری سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا، اس صورتحال میں لگتا ہے کہ حکومت ہائیکورٹ کے جج کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، بنچ نے وزارت قانون کے سیکرٹری کو دس اپریل ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا، بنچ نے کہا کہ اگر وزارت قانون ریکارڈ جمع کرا دے تو سیکرٹری کو پیش ہونے کی ضرورت نہیں، درخواست گزار قمر سہیل کے وکیل آفتاب باجوہ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پنجاب انکوائریز اینڈ ٹربیونل آرڈیننس 1969 کے تحت کسی بھی واقعہ کی انکوائری کیلئے ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے سے ہائیکورٹ کا جج حکومت کے ماتحت ہو جا تا ہے جبکہ آئین کے تحت ہائیکورٹ کا جج حکومت کے ماتحت نہیں ہو سکتا ،ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم کیا جائے، کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے دائر درخواست میں شیراز ذکاء ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی تشکیل آئینی ہے، اگر کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں کوئی غلطی ہے تو اس غلطی کی بنیاد پر جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا ، فل بنچ نے وکلاء کو ہدایت کی کہ اس نکتہ پر مزید معاونت کی جائے کہ ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مزید سماعت 10 اپریل کو ہوگی۔