’’نئے بھٹو کی ضرورت‘‘
4اپریل 2016ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی 37 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔پیپلزپارٹی نے 1993ء، 1988ء اور 2008ء میں اقتداربھٹوکے نام پرحاصل کیاکیونکہ وہ جمہوریت کانشان تھے۔بڑے بڑے محکموں کے وفاقی وزیر رہے ۔صدر اور وزیراعظم پاکستان رہے لیکن ان پرکرپشن کاکبھی الزام نہیں لگا بدقسمتی سے آج پاکستان ’’کرپشن فری لیڈر‘‘سے محروم ہے۔پیپلزپارٹی کا آخری دور حکومت کرپشن سے بھرا پڑا ہے۔بھٹو نے جس سوچ اور فلسفے کے تحت پھانسی کا پھندا قبول کیا تھا، پی پی پی کی موجودہ قیادت اس سے بہت دورجاچکی ہے۔ اسی وجہ سے آج پیپلزپارٹی آخری سانس لے رہی ہے۔ بھٹوکی بیٹی نے اس سوچ اورفلسفے پرچلتے ہوئے آمریت کامقابلہ کیا،لیکن27دسمبر2007ء کو ظالموں نے ان کو چھین لیا۔ پیپلزپارٹی اپنے آخری دورحکومت میں کوئی قابل فخرکارنامہ سرانجام نہیں دے سکی ماسوائے اس کے کہ کرپشن کی وجہ سے منہ چھپاتی پھرے۔
ذوالفقارعلی بھٹونے اپنے دوراقتدارمیں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے جس نے پاکستانیوں کی زندگی پردور رس اثرات مرتب کئے ۔1973ء کامتفقہ آئین، ایٹمی طاقت بنانا، لینڈریفارمز، لیبرپالیسی، نیشنل بک فاؤنڈیشن،این ڈی ایف سی،قائداعظم یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان سٹیل مل،شناختی کارڈ کا اجراء، ریڈ کریسنٹ ہلال احمر، پہلی اسلامی کانفرنس، بنیادی مراکز صحت، کسانوں اورغریبوں کومفت زمین اور گھر دینے، شملہ معاہدہ کیاجس کے نتیجے میں ساڑھے پانچ ہزارمربع ایکڑ اراضی اور 90 ہزارقیدی بھارت سے واپس لئے ۔جمعہ کی چھٹی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا بھی ان کے کارناموں میں شامل ہے۔
بھٹوپاکستان کی آزادخارجہ پالیسی کے مصور ہیں۔ انہوں نے عربوں کوعزت سے زندہ رہنے کاسبق دیا۔ افریقی اورایشیائی استحکام کے لئے جدوجہدکی۔ پاکستان بننے سے لے کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک ملک جس حالت سے گزررہاتھابھٹونے ان تاریک اندھیروں میں روشنیوں کاانقلاب برپاکیا۔انہوں نے پیپلزپارٹی بنائی اوراس کے پلیٹ فارم سے طوفان بن کراٹھے اورملک کے غریب ونادار،محنت کشوں، کسانوں اورآمریت زدہ عوام کی والہانہ عقیدت وحمایت،طلسماتی وجادوئی اثرات رکھنے والی شخصیت کے بل بوتے پرکارزارسیاست پر آندھی کی طرح چھاگئے۔ذوالفقارعلی بھٹوپاکستان کی سیاست کاایسانام ہے جس نے سب سے پہلے ملک میں طبقاتی نظام کے خلاف جہادکااعلان کیا۔ملک کی سیاست میں دوقسم کے لوگ رہے ہیں ایک بھٹوکے حامی اور دوسرے بھٹوکے مخالف مگراس بات کاسبھی اعتراف کرتے ہیں کہ بھٹوجیسالیڈرصدیوں میں پیداہوتاہے۔
5جولائی1977ء کومارشل لاء لگایا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا۔ 28جولائی1977ء کو رہا کر دیا گیا اور پھر3ستمبر1977ء کودوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت منظورکرلی تو 13ستمبر کو رہا کر دیا گیا۔ 19اکتوبر1977ء کوچیف جسٹس مولوی مشتاق نے ضمانت منسوخ کردی تو گرفتار کر لیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزاسنائی۔جس کی اپیل اور نظرثانی سپریم کورٹ میں کی گئی جومستردہوگئی۔کس طرح یکطرفہ عدالتی ٹرائل ہوااورکیسے بے انصافی ہوئی اس کی ایک جھلک 18دسمبر1978ء کوعدالت سے خطاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹونے اپنے خطاب میں کہاکہ ’’درحقیقت میں نے اداروں کوتقویت دی اوران کی ترویج کی ،آپ بخوبی واقف ہیں کہ جب میں صدر تھا اور آپ حمود الرحمن کمیشن کے رکن تھے تب چیف جسٹس حمودالرحمن اورکمیشن ایوان صدرمیں میرابیان لیناچاہتے تھے۔مَیں نے فوری طورسے ایک خصوصی نائب کے ذریعے ایک پیغام بھیجاکہ میں یہ تصوربھی نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے چیف جسٹس اورہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان میرے پاس چل کرآئیں اوریہ کہ یہ میرافرض ہے کہ میں خودکمیشن کے پاس جاؤں،میںیہ کمیشن کے لئے صحیح نہیں سمجھتاتھاکہ وہ بیان لینے کے لئے محض اس وجہ سے میرے پاس آئے کہ میں پاکستان کاپہلامنتخب صدرہوں۔‘‘
’’معاف کیجئے گاجناب والا!میں ایساشخص نہیں جس کی جڑیں نہ ہوں۔سادات ابھی تک اسرائیل کے ہاتھوں کھوئے ہوئے صحراکی تلاش میں ہیں ۔بیگن اسے اسرائیل کی سرزمین کہتاہے۔ہندواس سرزمین کوبھارت ماتاکہتے ہیں۔میں نے نوے ہزارجنگی قیدیوں کوبھارت کے چنگل سے نجات دلائی ہے پھربھی میرے ساتھ مجرمو ں کاسابرتاؤکیاجارہاہے۔میں مجرم نہیں ہوں۔میں مجرم نہیں ہوں لیکن میرے ساتھ دوسرے ملزمان سے زیادہ خراب سلوک روارکھاگیاہے۔میں موسیقی کی آواز سنتا ہوں۔میں کال کوٹھری میں ان کے قہقہے سنتاہوں۔اس کال کوٹھری سے باہرنہیں نکل سکتا۔جناب والا90دن سے میں نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔‘‘
15اکتوبر کو جب دو قیدی جیل سے فرار ہو گئے تو مجھے سیل میں بندکر دیا گیا میرا ان کے فرار سے کیا تعلق تھا؟تعلق کہاں تھا؟ میں اپنے ملک سے فرار نہیں ہو سکتا میں اپنے ملک سے فرار نہیں ہوں گا۔‘‘جناب والا!مری میں مصطفی کھرنے مجھ سے کہاکہ ملک چھوڑدوں انہوں نے کہاکہ یہ لوگ آپ کے خون کے پیاسے ہیں۔میں نے کہانہیں اگرتم جاناچاہتے ہو تو چلے جاؤمیں اپنی جڑیں چھوڑکرنہیں جاؤں گا۔ 13ستمبر کو نواب صادق حسین قریشی کی کوٹھی پرپریس کانفرنس کے بعدایک غیرملکی صحافی مجھے ایک طرف لے گیااوراس نے کہا:بھٹوصاحب !میں نہیں بتاسکتاکہ آپ کے خلاف کیاکچھ ہے۔بہتریہ ہے کہ آپ ملک چھوڑدیں میں آپ کامداح ہوں‘‘۔میں نے اس صحافی کاشکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس سے زیادہ نہیں سنناچاہتا۔بس اتناہی کہوں گا کہ میں اسے بھول نہیں سکتا۔تب اس نے کہا:’’مہربانی کر کے لاڑکانہ جائیںیا کہیں اورچلے جائیں۔آپ نہیں جانتے کہ کیاہورہاہے‘‘۔میں نے کہامیں لاڑکانہ ضرور جاؤں گا۔اس دھرتی پرجہاں میں نے جنم لیااس دھرتی پر جس سے میراتعلق ہے اورجہاں مجھے واپس جانا ہے۔ میں باہرنہیں جاؤنگا۔‘‘
آج پاکستان میں حکمران طبقہ توہے لیکن لیڈرشپ کی کمی ہے جوسوچ دے سکے اورملک کوآگے لے جا سکے۔ ملک کے ڈھانچے کومضبوط بنانے کے لئے متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان آبرو مندانہ اورمنصفانہ ہم آہنگی پیدا کر سکے۔لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لا سکے۔ غربت کا مقابلہ کر سکے۔ کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرو سکے۔ عوام کو عزت نفس دے سکے۔بھٹو کے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے کو آگے لے جا سکے اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بن سکے۔اس کے لئے ایک نئے بھٹوکی ضرورت ہے جوکرپشن سے پاک ہواوردنیاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکے۔دہشت گردوں کا مقابلہ کرے اورجدیدپاکستان کی بنیادرکھ سکے۔