امتحانات اور نقل

امتحانات اور نقل
 امتحانات اور نقل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حیدرآباد کے ایک امتحانی مرکز پر ایک بچہ پولیس کی خاتون افسر اور اہل کار کے سامنے گڑگڑا رہا تھا ۔ خاتون افسر اور اہلکار کو یہ توفیق ہی نہ ہوئی کہ ٹھہر کر بچے کی پوری بات سن لیتے۔ بچہ نقل کرتے ہوئے پایا گیا تھا۔ کمرۂ امتحان کے نگران نے بچے کی کاپی لے لی تھی اور اس پر اپنا تبصرہ لکھ دیا، جس کی وجہ سے یقیناًبچے کو فیل کر دیا جائے گا۔ صوبہ سندھ میں نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات جاری ہیں۔ چاروں تعلیمی بورڈوں نے ایک ساتھ امتحانات کا آغاز کیا ہے۔ اکثر امتحانی مراکز میں جس پیمانے پر نقل جاری ہے وہ تشویشناک ہے۔ نقل کی روک تھام کے لئے محکمہ تعلیم اور امتحان لینے والے تعلیمی بورڈوں نے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے اور جو اقدامات کئے گئے ہیں ان میں جائزہ لینے والی کمیٹیاں ، پولیس اہل کاروں اور افسران کے دورے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہ تو ہر سال کیا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی تقرری کے بعد اپنی حکومت کی جن ترجیحات کا اعلان کیا تھا ان میں محکمہ تعلیم میں ہنگامی حالات نافذ کرنے کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہیں آٹھ ماہ مکمل ہوئے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکے کہ سندھ میں تعلیمی معیار بہتر کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔


محکمہ تعلیم صوبے کا روزگار دینے والا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے ، تعلیم کے بجٹ میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے قرضے بھی لئے گئے ہیں، لیکن تعلیم کا معیار تنزلی کی طرف ہی جا رہا ہے۔ جو سکول بند تھے، وہ بند ہی ہیں۔ جہاں اساتذہ تقرری کے باوجود نہیں جارہے تھے ، ان کی اکثریت اپنا طور طریقہ تبدیل نہیں کر سکی۔ فضل اللہ پے چوہو اس لحاظ سے با اختیار سیکرٹری تصور کئے جاتے تھے کہ وہ حکومت سندھ چلانے والی پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں، لیکن وہ بھی دل برداشتہ ہو کر محکمہ تعلیم چھوڑ گئے اور محکمہ صحت کے سیکرٹری مقرر ہوگئے۔ محکمہ صحت کی کارکردگی کے بارے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ججوں کے سامنے جو اعتراف کیا، وہ حکومت سندھ کی نااہلی پر اہم تبصرہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمے میں پرچی پر بھرتی ہونے والا کلرک ان کا ڈپٹی سیکرٹری بن گیا ہے، وہ اپنا محکمہ کس طرح چلائیں؟ اس بیان کے بعد تو کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ محکمہ تعلیم کے وزیر جام مہتاب ڈہر ہیں۔ اس سے قبل وہ محکمہ صحت کے وزیر تھے۔ جام مہتاب نے شائد ہی کسی سکول یا تعلیمی ادارے کا دورہ کیا ہو۔ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کسی خود کار نظام کے تحت محکمہ تعلیم کام کر رہا ہے اور سب کچھ درست ہو رہا ہوگا، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ پیر مظہر الحق ، نثار کھوڑو بھی وزیر رہے، لیکن بس نام کے و زیر ہی رہے۔


صوبے میں غیر معیاری تعلیم کا خمیازہ تو سب ہی بھگت رہے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے جو تباہی ہمارا انتظار کر ہی ہے شائد اس کا ادراک وزراء ، اراکین اسمبلی، دانشوروں، ذرائع ابلاغ کو نہیں ہے کہ جہلا کی قوم پرورش پارہی ہے جو کل ملک کے لئے مسائل کا سبب ہی بنے گی۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا قصور ہے جو کسی پولیس افسر اور اہل کار کے سامنے گڑگڑا رہا تھا کہ اس کی امتحانی کاپی واپس دلا دیں۔ کیا واقعی یہ بچہ یا نقل کرنے والے تمام بچے نقل کرنے کے ذمہ دار ہیں؟ کیا ان کے والدین ذمہ دار ہیں؟ آخر کوئی تو ذمہ داری قبول کرے۔ جنہیں ذمہ داری قبول کرنا ہوگی وہ اساتذہ ہیں۔ آج کل سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو بہترین تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ محکمہ تعلیم ملک کا وہ واحد سرکاری ادارہ ہے، جہاں سب سے زیادہ تعطیلات کی سہولت حاصل ہے تو پھر آخر یہ اساتذہ اپنے اپنے سکولوں میں بچوں کو صحیح طریقے سے تعلیم کیوں نہیں دیتے؟ یہ اساتذہ اپنے فرائض کیوں انجام نہیں دیتے ۔ محکمہ تعلیم کے افسران کس مرض کی دوا ہیں؟ فضل اللہ نے محکمہ تعلیم میں خطیر رقم خرچ کر کے بائیو میٹرک نظام نا فذ کیا تھا، تاکہ سکولوں میں اساتذہ کو پابند کیا جا سکے کہ وہ سکول میں وقت پر حاضر ہوں اور اپنی ڈیوٹی ادا کریں۔ آغاز میں تو حاضری کو مانیٹر بھی کیا جارہا تھا۔ بعد میں ہمارے رشوت زدہ نظام نے اس کو بھی متاثر کر دیا۔ماہانہ رقم لے کر غیر حاضر اساتذہ کو چھوٹ دے دی گئی ہے۔


بچوں یا ان کے والدین کو کیوں کر ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے اور اساتذہ کیوں کر جواب دہ نہیں ہیں کہ بچے نقل کیوں کر رہے ہیں۔ جواب بہت سیدھا سا ہے کہ امتحانات میں وہی بچے نقل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جنہیں ان کی کلاسوں میں ان کے اساتذہ نے دلچسپی کے ساتھ پڑھایا نہیں ہوتا۔ ایسا کوئی بچہ نقل نہیں کرتا جس نے سال بھر توجہ سے پڑھا ہو یا اسے توجہ کے ساتھ پڑھایا گیا ہو۔ یہ صرف استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو سال بھر توجہ کے ساتھ پڑھا ئیں ۔ ان اساتذہ کی نگرانی کرنے والے افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقفے وقفے کے ساتھ سکولوں کا جائزہ لیں، بچوں سے گفتگو کریں، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ بچوں کو کیا پڑھایا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے وزیر کی ذمہ داری ہے کہ جب نقل کرنے کی وبا پھیلی ہوئی ہو تو وہ اپنی ہر صبح کا آغاز سکول کا دورہ کر کے کریں۔ جس وزیر تعلیم کے پاس وقت نہیں ہے، اسے اگر وزیر رکھنا ہی مقصود ہے تو کوئی اور وزارت دے دی جائے ۔ قوم کے مستقبل سے تو نہ کھیلا جائے۔ تمام تعلیمی اداروں میں سہ ماہی اور شش ماہی امتحانات کے سلسلے کو موثر بنایا جائے۔ مَیں نے ما ضی میں بار بار لکھا تھا کہ دانشور حضرات اور علاقوں کے تعلیم یافتہ افراد سال بھر سکولوں کا خود بھی جائزہ لیا کریں ، دیکھا کریں کہ بچوں کو کیا تعلیم دی جاری ہے، انہیں کس طرح پڑھایا جا رہا ہے ، تعلیمی بورڈ امتحانات کے نتائج امتحانی کاپیوں کی توجہ کے ساتھ جانچ پڑتال کے بعد حقیقی نتائج کا اعلان کریں۔ کیوں ضروری ہے کہ ہر بورڈ اسی فیصد سے زائد بچوں کو کامیاب قرار دے۔ کیوں گریڈ ڈی اور ای میں بچوں کو پاس کیا جائے۔ کیوں نہ صرف گریڈ اے، بی اور سی پر اکتفا کیا جائے اور قابلیت کی بنیاد پر بچوں کو کامیاب کیا جائے؟


سخت نتائج اساتذہ کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے اپنے سکولوں اور کالجوں کے بچوں کی پڑھائی پر بھر پور توجہ دیں، جن سکولوں کے نتائج خراب ہوں وہاں کے اساتذہ پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ جن سکولوں کے بچے نقل کرتے پائے جائیں ، اور وہ جس مضمون میں نقل کے مرتکب ہوں، اس مضمون کے استاد پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ دو سال جرمانے کی سزا پانے والے استاد کو ملازمت سے فار غ کیا جائے۔ نقل کر کے پاس ہونے والے لوگ اپنے سرٹیفیکیٹ لئے گھومتے ہیں کہ انہیں سرکاری ملازمت مل جائے۔ جنہیں ملازمت نہیں ملتی، وہ بے روز گاری کی شکایت کرتے پھرتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم چلاتے ہیں کہ انہیں روزگار نہیں دیا جاتا ۔ اس تماش گاہ میں نظام تعلیم ہو یا نظام صحت یا حکومت کا کو ئی محکمہ یا ادارہ، اسے چلانے کے ذمہ دار سیاست دانوں اور وزیروں، اکثر اراکین اسمبلی کے بچے تو کراچی اور لاہور یا دبئی کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جن انتخابی حلقوں سے یہ لوگ منتخب ہوتے ہیں یا نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان حلقوں کے وسائل سے محروم غریب لوگوں کے بچے تو اپنے ہی دیہات اور شہروں میں قائم سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جہاں صد افسوس تعلیم نہیں دی جاتی ۔ ہماری حکومتیں چین کی دوستی کا دم بھرتی ہیں تو چینیوں کے قول پر بھی عمل کریں۔ ان کا قول ہے کہ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا ہے تو لوگوں کی تربیت کرو اور انہیں تعلیم دو۔

مزید :

کالم -