میٹروحلال ہو گئی

میٹروحلال ہو گئی
 میٹروحلال ہو گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آہ ! مفت کی شراب ہوتی تو قاضی کو حلال ہونے کا جواز ہوتا مگر یہاں دشمنوں سے دوگنا خرچ کر کے میٹرو کو حلال کیا جا رہا ہے، راولپنڈی کے جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیاء کی روح سے معذرت کے ساتھ ،’پی ٹی آئی کی زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو نون لیگ کے نامہ سیاہ میں تھی‘ یعنی جو میٹرو بس سروس لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں چار، پانچ برسوں سے حرام تھی ، جس کانام لینا بھی منہ کو چالیس روز کے لئے گندا کر دیتا تھا وہ اب پشاور میں نہ صرف جائز بلکہ کار ثواب ہو گئی ہے۔ لاہور میں یہ جنگلہ بس تھی تو حضور کیاامید رکھی جائے کہ پشاور میں جنگلہ نہیں ہوگا۔ مریم نواز شریف کی تصویر کو فوٹوشاپ کر کے ایک غریب بچے کے ساتھ کھڑے دکھاکر کہا جاتا تھا، بھوک لگی ہے تو لو بیٹا میٹرو کھا لو، طعنے دئیے جاتے تھے کہ تعلیم اور علاج پر پیسے نہیں خرچ کئے جاتے، سوال یہ ہے کہ پشاور کی میٹرو لاہور سے قریبا دوگنے خرچ کے ساتھ بن رہی ہے توکیا یہ سفر کرنے والوں کو بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر بھی کروائے گی، اس میں بیماریوں کا علاج بھی ہوگا اور کتنی مرتبہ سفر کرنے والا میٹرک، بی اے اور ایم اے کی ڈگری کا حقدار سمجھا جائے گا، کہا کسی شریر نے، پشاور کی میٹرو میں لاہور ، راولپنڈی اور ملتان کی میٹروز کے مقابلے میں یہ خوبی ہے کہ اس میں محض پندرہ منٹ سفر کرنے سے ہر لڑکی گوری گوری ہو جائے گی۔


یوں کہا حب علی سے زیادہ بغض معاویہ رکھنے والے ایک دوست نے، حکمرانوں کو پیسے غریبوں پر خرچ کرنے چاہئیں ، میں نے پوچھا، میٹرو کی تعمیر کے ذریعے غریبوں پر پیسے خرچ نہیں ہوتے تو پھرکس طرح ہوتے ہیں، جواب ملاکہ ہسپتال بنا کر، میں نے سوچا نجانے ہمارے بعض دانشوروں کی نظر میں غریب کا مسئلہ صرف بیماری ہی کیوں ہوتا ہے، غریب کی ایک ہی منظر کشی کیوں کی جاتی ہے کہ وہ ایک چارپائی پر لیٹا خون تھوک اور دوا کے حصول کے لئے چیخ و پکار کر رہا ہے جبکہ غریبوں کے بہت سارے دوسرے مسائل بھی ہوتے ہیں جن میں ایک مسئلہ نقل و حمل کا بھی ہے۔میں پشاور میں میٹرو کے قیام کا بہت بڑا حامی ہوں ، بالکل اسی طرح جیسے میں کراچی سے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اٹھائے جانے کا حامی ہوں لیکن ہمار ے دوستوں کو یہ سب کچھ لاہور میں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ لاہور کی میٹرو آج سے چار سال قبل ستائیس ارب روپوں میں بنی تھی مگر پشاور کی میٹرو ستاون ارب روپوں میں بنائی جائے گی۔ جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ پشاور کی میٹرو میں کچھ اضافی خوبیاں موجود ہیں یعنی میٹرو ستائیس ارب میں ہی ہے اور اضافی خوبیوں کے تیس ارب اضافی ہیں۔ لاہور ، ملتان اور راولپنڈی کی میٹرو میں تو بہت سارا سفر ایلی ویٹڈ ہے یعنی اس کے لئے خصوصی پُل بنانے پڑے ہیں مگر پشاور میں میٹرو کے یہ اخراجات بغیر کسی ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے کے ہیں۔ یہ امر بھی طے شدہ ہے کہ پشاور میں زمین لاہور سے سستی ہے تو پھر میٹرو مہنگی کیوں ہے۔ ہمارے پی ٹی آئی کے دوست کہتے رہے ہیں کہ ایسے منصوبے دراصل کمیشن بنانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور جواب میں سوال یہ ہے کہ اگر ہہ بات درست ہے تو الیکشن سے ایک سال پہلے ایسے منصوبے کا آغاز یقینی طور پر دال میں کالے کے مترادف ہے۔


پی ٹی آئی اپنے مخالفوں کو جاہل اور پٹواری کہتی ہے مگر اب اس کے منصوبہ سازوں کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ وہ مسلم لیگ نون سے وژن اور کارکردگی میں کم از کم چار سے پانچ سال پیچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گذشتہ روز یہ شعرٹوئیٹ کیا ،’ وہ جو کترا کے نکلتا تھا میرے رستے سے، اب سنا ہے کہ میرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے‘۔ ہمارے دوستوں کا دعویٰ ہے کہ ان چار برسوں میں پی ٹی آئی نے پہلے وہاں صحت ، تعلیم اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیا اور اب پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ کے پی کے میں اگر صحت کی سہولتوں کی فراہمی پنجاب سے بہت بہتر ہو گئی ہے تو ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ ہمارے پختون بھائی اپنے علاج کے لئے پنجاب کے ہسپتالوں کا رخ نہیں کریں گے ۔ پیپلزپارٹی سے وابستہ ایک سیاسی شخصیت کے ملکیتی ٹی وی چینل پر ہمارے ایک دوست اینکر حیات آباد پشاور کے ایک ہسپتال کی منظر کشی کر رہے تھے ، وہ ماربل سے سجا ایک ویٹنگ ایریا دکھا رہے تھے جہاں سر کے اوپر ایل ای ڈی لائٹس چمک رہی تھیں اور پرچی کمپیوٹر پر بن رہی تھی، وہ بار بار بتا رہے تھے کہ اس ہسپتال میں ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں ، وہ یہ بات کرتے ہوئے اپنے قدموں پر کچھ اچھل بھی جاتے تھے کہ یہ اصل تبدیلی ہے۔ اس پروگرام کا کلپ ہمارے کراچی سے پی ٹی آئی کے ایک معروف رہنما نے شئیر کیا تھاجس میں بتایا جا رہا تھا کہ یہ انقلابی تبدیلی صرف چار ماہ میں لائی گئی ہے اور اس پر بہت سارے سوالات ہیں، پہلا یہ کہ چار مہینے میں کیوں ، یہ تبدیلی چار سال پہلے کیوں نہ آگئی اگر یہ اتنی ہی آسان اور سادہ تھی، دوسرے کیا علاج ومعالجے کے شعبے میں اصل اہمیت جدید کرسیوں، جگمگ کرتی بتیوں، ماربل فلورنگ اور کمپیوٹروں کی ہے یا امراض کے ان ماہرین کی ہے جوپرائیویٹ نہیں سرکاری طور پر غریبوں کا مفت علاج کریں، آپریشن تھیٹروں کی ہے اور ادویات کی مفت فراہمی کی ہے دوسرے اگر تعلیم کی حالت بہتر ہوئی ہے تو اس کا علم ان قومی اور بین الاقوامی اداروں کو بھی ہو نا چاہئے جو تعلیم کے معیار کی مانیٹرنگ اور فنڈنگ کرتے ہیں، الف اعلان کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ابھی تک ان کے پا س ایسی کوئی اطلاع نہیں پہنچی۔


صحت، تعلیم اور امن و امان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے ساتھ سفری سہولت کی فراہمی کو صرف اس لئے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ باقی سہولتیں اپنے بہترین انداز میں دستیاب نہیں ۔ ہمیں عوامی سہولتوں اور قومی ترقی کے لئے تمام شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہاں پنجاب او رمرکز کے حکمرانوں کا صحت ، تعلیم اور امن و امان کے لئے کوششوں کا کوئی مقدمہ نہیں لڑنا مگر یہ امر ایک حقیقت ضرور ہے کہ پنجاب اس وقت بھی ان تمام شعبوں میں دوسرے صوبوں سے بدرجہا بہترہے۔ شہباز شریف ہوں یا چودھری پرویز الٰہی، وہ پنجاب میں اپنے اپنے انداز میں بہتری لائے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اگر دوسرے صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی ناقص رہی ہے تو یقینی طور پراس میں پنجاب کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے سندھ کے دوروں اور عمران خان کی جماعت کی طرف سے میٹرو بس سروس کے قیام کے اعلا ن سے واضح ہو گیا ہے اگلے انتخابات اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کی بجائے عوامی خدمت کی بنیاد پر ہوں گے۔ عوام کو جعلی منصوبوں کے فرضی اعلانات سنتے ہوئے ستر برس ہونے والے ہیں۔جہاں ایک طرف خان صاحب میٹرو کو کاپی کر کے اپنے ہی سیاسی فلسفے کی نفی کر رہے ہیں تو دوسری طرف 80کروڑ درخت لگانے کامحیر العقول دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم یہ تصور بھی کر لیں کہ ایک برس میں 80کروڑ درخت لگے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سال کے 365 دنوں میں ہر روز 21لاکھ 91ہزار 780 درخت لگائے گئے، چلیں، وقت کو بڑھا کے 2برس کر لیتے ہیں تو دوبرسوں کے 730 دنوں میں ہر روز 10لاکھ 95ہزار 890 یعنی دن رات، سردی گرمی بارش میں ہر گھنٹے میں45 ہزار 662 درخت لگانا لازمی تھا جو کہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ پہلے مرحلے میں ہزاروں افراد ایسے درکار تھے جو دن رات درخت لگا رہے ہوتے، سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہاں تھے جو یہ کام کر رہے تھے اور کسی کو نظر کیوں نہیں آئے ، کیا وہ جن بھوت تھے؟


چلیں میٹرو کے حلال ہونے پر رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کا فائدہ پشاور کے شہریوں کو ہوگا مگر پھر دوستوں کے دعوے حیران کرتے ہیں، لاہور کی آبادی سوا کروڑ کے قریب بتائی جا رہی ہے اور اس کے میٹرو روٹ پر روزانہ سوا لاکھ مسافروں کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر پشاور کی آبادی لاہور کے ایک تہائی سے بھی کم ہے اور دعویٰ ہے کہ وہاں جو میٹرو بنے گی اس میں روزانہ پانچ لاکھ مسافر سفر کریں گے۔ میٹرو کے حلال ہونے کی خوشی میں ہم اس پر بھی خاموش ہوجاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن سے پہلے یہ میٹرومکمل ہوجائے گی یا آنے والی حکومت کے گلے میںیہ ڈھول ڈال دیا جائے گا؟

مزید :

کالم -