عوام کے دلوں پر راج کرنے والے ۔۔قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو

عوام کے دلوں پر راج کرنے والے ۔۔قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو
 عوام کے دلوں پر راج کرنے والے ۔۔قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا کے روشن خیال لوگ اس بات پر سہمت ہیں کہ ذہنی آبیاری کسی بھی قو م کی ترقی اور خوشحالی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے ،کسی بھی معاشرے میں انقلاب لانے کیلئے پہلے عوام میں ذہنی اور فکری انقلاب برپا کرنا لازمی ہوتا ہے ۔دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے عام آدمی کیلئے آگاہی کے نئے دروازے کھولے ، ایک ایسا انقلاب لائے جس سے پہلے قوم جمود کا شکار تھی ۔


صرف مدبر ہی ایسے کام یا کارنامے سرانجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں جو اپنے نظام سے ناطہ جوڑ کر نئے راستے سنوارنے میں ماہر ہوں اور جن کا خواب قومی ترقی کا عزم ہو ۔بھٹو صاحب نپولین اور ریڈیگال جیسے عظیم راہنماؤں کے نہ صرف مدح تھے بلکہ ان کی طرح بین الاقوامی توازن کا عالمی تصور اپنا کر ان کو بھر پور حقیقت پسندی اور مہارت سے جوڑ نا چاہتے تھے۔


شہید بھٹو عام روایتی سیاسی راہنما نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں کامیاب سیاسی راہنما کے ساتھ ساتھ مدبر، مفکر اور دانائی کا دریا تھے۔تاریخ ہو یا فلسفہ ،مذہب ہو یا منطق ،سیاست ہو یا سائنس ، سیاست ہو یا سماجیات ،عمرانیات ہو یا معاشیات ، انسانی نفسیات ہو یاحیاتیات ، کوئی ایسا موضوع نہیں جس پرانہوں نے اپنی تقریریں نہ کی ہوں یا تحریریں نہ لکھی ہوں ۔بھٹو صاحب کی تحریری تخلیق میں سے’’ میتھ آف انڈیپنڈ ینس‘‘ ’’دی گریٹ ٹریجڈی ‘‘’’ پاکستان کے سیاسی حالات ‘‘’’تیسری دنیا ،اتحاد کا تقاضہ‘‘ ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘اور’’ مائی ڈیئریسٹ ڈاٹر ‘‘ پڑھی ہو اس کیلئے ان کی عظمت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔دانشمندی کا دعوی کرنا الگ بات ہے لیکن شعور اور آگاہی کے دروازے کھولنا کوئی عام بات نہیں ۔دنیا کے عظیم انسانوں کومختلف لوگو ں کی طرف لکھے گئے خط تاریخ کا حصے ضرور بنتے ہیں لیکن بھٹو صاحب کی اپنی عظیم بیٹی کو لکھے ہوئے خط تاریخ کا ایک مکمل باب ہیں۔ان میں سے ایک خط پر لکھا جائے تو درجنوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔21جون 1978کوسنٹرل جیل راولپنڈی سے اپنی پیاری بیٹی بے نظیر بھٹو کو لکھا ہو ایک خط لکھا تھا وہ صرف خط نہیں بلکہ ایک مکمل تاریخ ہے (اس دن محترمہ بے نظیر بھٹوخود بھی جیل میں قیدتھیں ) جو باطل قوتوں کے خلاف آئند ہ کی تاریخ ساز جدو جہد اور جنگ جیتنے میں بنیادی اصول اور راستہ بتاتا ہے ۔یہ خط سمندر کی لہروں کو بے قرار کرنے اوردریاکو کوزے میں بند کرنے کے مثل ہے ۔بھٹو صاحب نے اپنی پیاری بیٹی کو لکھا، جس کے تدبر ،دانائی اور اعلیٰ درجے کے سیاسی فکر سے پہلے ہی بخوبی واقف تھے۔ اس خط میں نہ صرف سیاست اور علمی معملات پر نہایت اہم علم موجود ہے بلکہ دور اندیشی ، دانائی، انسان دوستی،انسانیت اور ملنسار ی کا سبق بھی شامل ہے اس خط میں عالمی چال بازیوں ،وفا اور بے وفائی ، حق اور ناحق ، آمریت اورجمہوریت کا ایسے احسن طریقے سے سراغ نکالا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس کو پڑھ کر اس میں کھو جاتا ہے ۔بھٹو صاحب نے اپنی شخصیت کو تین چار سطروں میں مو تیوں کی طرح پرو کر اپنی دانا بیٹی کی طرف اس خط میں لکھا تھا ۔


’’تمہارے دادا جی نے مجھے فخر سے سیاست سکھائی تھی اور تمہاری دادی جس نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ۔میں اپنی باتوں کو مظبوطی سے سنبھالتا ہوا آرہا ہوں کہ جیسے دونوں پہلو اپنے آپ میں ضم ہو جائیں ‘‘ویسے بھی بھٹو صاحب کی شخصیت کے بارے میں جانا جائے تو اس کی دونوں ا طراف روشن نظر آئیں گی۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر جب والد محترم کا سایہ پڑا تو وہ دانائی ، دور کی سوچ ، مضبوط سیاسی حکمتِ عملی والے مورچے فتح ہوتے نظر آئے اور جب ماں کا سایہ پڑا تو ایک غریب پرور عام آدمی سے بے انتہا پیار کرنے اور عام کارکنوں کو عزت اور مرتبہ دینے والا ایک اعلیٰ انسان کے روپ میں نظر آئے ۔ دنیا کے حکمرانوں کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسے لیڈر کی مثال نہیں ملتی جو عام آدمی میں نہ صرف گھل مل جاتا ہے بلکہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ان سے پوچھتا ہے ۔بھٹو صاحب آخری فیصلہ عوام سے ہی لیا کرتے تھے چاہے وہ پارلیمنٹ میں ہو یادوسرے کسی ادارے یا ایوان میں ۔ ان کاعوام سے براہ راست رابطہ ہوتا تھااور عوام کے بعد ان کے پاس سب سے زیادہ اہمیت اور عزت پارٹی کارکنان کی ہوتی تھی ۔ہر کارکن کو ذاتی طور پر جاننا،ڈویژن اور ضلعی سطح پر کیمپس قائم کرنا، ایک ایک کارکن کو سننا اور بڑے بڑے لوگو ں اور وزیرں اور افسروں کو عوام کے سامنے لا کر کھڑا کرنا ،بھٹو صاحب کی شخصیت کا ہی کمال تھا ۔بھٹو صاحب عوام کے ساتھ رہے اور عوامی اور رہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ آج بھی کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں ۔یہ دل آج بھی بھٹو کے نام پر دھڑکتے ہیں بھٹو صاحب جب بھی اپنے بازو پھیلاتے تھے ایسے لگتا تھا کہ شاہ بھٹائی نے یہ شعر لکھا ہے ۔


ملیر ان مارو، پکھی پھی آیا
وریا واھرو ،ھاٹوسب ھیٹا تھیا
شہیدبھٹو جہاں کروڑوں انسانوں کے دلوں پر راج کرتے تھے وہاں باطل قوتیں ان کے نام سے ہل جاتی تھیں ۔شہید بھٹو نے 4اپریل 1979 کی آخری کالی رات فرانس کے صدر والری جیس کارڈ ایسٹینگ کو خط لکھا ۔یہ خط بھٹو صاحب نے پھانسی سے چند لمحے پہلے لکھا تھا ۔اس میں بھٹو صاحب لکھتے ہیں ’’میں دو فوجی آمروں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اس لئے تیسری طرف سے مجھے مارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔لیکن اگر مجھے قتل کیا گیا تو میرا خون اس برِ صغیر کے نوجوانوں مردوں اور عورتوں کیلئے ایسی مثال بنے گا جیسے فرانسیسی گلاب بہار کے موسم میں ان کی بے مثال خوبصورتی کیلئے کام آتا ہے ‘‘
یہ حقیقت ہے کہ جابر اور ظالم قوتوں نے 4اپریل کو ہم سے بھٹو صاحب جیسا عظیم انسان جسمانی طور پر جدا کیا ۔ لیکن ان کے لہو نے زمین کے خمیر سے مل کر ایک ایسا لگاؤ پیدا کیا جواس زمین کے کسان ،مزدوراور عام آدمی میں سے خوشبولے کررہتی دنیاتک ایک نئی سانس لیتا رہے گا۔

مزید :

کالم -