مولانا فضل الرحمان کا تاجور بننے کا منصوبہ
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سیاسی چالوں کے اعتبار سے وطن عزیز کے چند کامیاب ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں ، ہر حکومت سے حصہ بقدر جثہ سے کہیں زٰیادہ حاصل کرنے کے لیے وہ ہمیشہ مشہور رہے ہیں اب جمعیت علماء اسلام کے صد سالہ تاسیسی اجتماع کا اعلان بھی ان کی ایسی ہی ماہرانہ چال ہے ، یہ ترپ کا پتہ انہوں نے بروقت پھینکا ہے کیونکہ اب انتخابات 2018 میں زیادہ وقت باقی نہیں بچا اور یہ 100سالہ اجتماع خیبر پختونخواہ کی اکثریتی آبادی اور بلوچستان میں بھی آبادی کا پشتون حصہ جو دیوبند مسلک سے تعلق رکھتا ہے اس پر بھرپور طریقے سے اثر انداذ ہو سکتا ہے ۔سندھ کے کچھ علاقوں میں بھی دیو بند مسلک کے مدارس کے نیٹ ورک کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام کا ووٹ بینک موجود ہے اور پنجاب میں بھی اپنے مسلکی تشخص کی وجہ سے یہ کئی حلقوں پر اثر انداذ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جھنگ سے تعلق رکھنے والے مولانا مسرور جھنگوی ممبر پنجاب اسمبلی بھی ہیں اگرچہ وہ کامیاب تو اہلسنت والجماعت کی وجہ سے ہوئے تھے لیکن بہرحال اب وہ جمعیت علماء اسلام کا ہی حصہ ہیں
جمعیت علماء اسلام جو صوبہ خیبر پی کے میں سابقہ ادوار میں حکومت سازی بھی کر چکی ہے اور بلوچستان حکومت میں بھی اہم وزارتوں پر فائز رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ صرف اور صرف اس کی مسلکی شناخت ہی ہے ۔اگرچہ دیو بند مسلک کے کچھ اور قائدین جن میں مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام ، مولانا احمد لدھیانوی اہلسنت والجماعت ، جمعیت علماء اسلام نظریاتی سمیت کچھ اورر تنظیموں کے قائدین بھی سیاسی میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن جو مقبولیت جمعیت علماء اسلام ف کو حاصل ہوئی ہے وہ کسی اور کو نہیں مل سکی ، مذہبی جماعتوں کے قائدین میں آج سب سے بڑا نام مولانا فضل الرحمان کا ہی ہے جنہوں نے بروقت اور سیاسی لحاظ سے درست فیصلے کرکے اپنی جماعت کو ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط تر کیا اور اپنے سے کہیں زیادہ قد آور حریف مولانا سمیع الحق کو پیچھے چھوڑ دیا ، ملکی سطح پر بھی مذہبی جماعتوں کے تمام تر قائدین بشمول سراج الحق ، سید منور حسن ، راجہ ناصر عباس ، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر ، صاحبزادہ حامد رضا ، پروفیسر ساجد میر سمیت دیگر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مولانا فضل الرحمان جیسا قد کاٹھ نہیں حاصل کر سکے ، مولانا فضل الرحمان پر ہرحکومت کا حصہ بن جانے ، حکومتوں سے سودے بازی اور اپنے کارکنوں اور ممبران اسمبلی کے لیے ہر حکومت سے مراعات حاصل کرنے کے الزامات ہمیشہ ہی لگتے رہے ہیں لیکن ان کے اسی کردار نے انہیں دیوبند مسلک کا مرکزی رہنماء بننے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب جمعیت علماء اسلام کے قیام کے 100سال مکمل ہونے سے 2 سال پہلے صد سالہ اجتماع کا اعلان کر دیا ہے ۔
کالم نگار برادر بزرگ خورشید ندیم نے اس اجتماع کو قمری یعنی اسلامی ہجری سالوں کے اعتبار سے 100 سال مکمل ہونے پر صد سالہ قراردینے کی غلط بیانی کر کے عوام کو مغالطہ دینے کی کوشش بھی کی لیکن قمری حساب سے تو 101 سال مکمل ہو چکے۔ اس حساب سے بھی یہ صد سالہ نہیں بنتا ، ویسے تو یہ جمعیت علماء اسلام کے قیام کو 98 سال مکمل ہی نہیں ہوئے۔یہ جماعت1919 ء کو قائم ہوئ تھی۔ جمعیت علماء اسلام کی بنیاد علامہ شبیر احمد عثمانی نے 1945ء میں رکھی تھی اور قیام پاکستان کے بعد ختم ہو گئی تھی کیونکہ اس کے قیام کی وجہ ہی جمعیت علماء ہند کی جانب سے تحریک پاکستان کی شدید مخالفت تھی اور علامہ شبیر عثمانی کو اس کی مخالفت میں الگ جماعت بنا کر مسلم لیگ کی حمایت کرنا پڑی اور وہ قاءد اعظم کے دست راست بنے ۔ موجودہ جمعیت علماء اسلام کی بنیاد تو 1956ء میں رکھی گئی تھی جس کے پہلے امیر مولانا احمد علی لاہوری قرار پائے تھے ۔تب سے اب تک جمیعت علماء اسلام بڑی دینی قوت کے طور پر مسلسل قائم رہی ہے ، لیکن مولانا فضل الرحمان جو سیاسی پتے بروقت کھیلنے کے لیے مشہور ہیں انہوں نے جمعیت علماء اسلام کا تسلسل جمعیت علماء ہند کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس کے صد سالہ اجتماع کا اعلان کر دیا ایسا ہی ایک زبردست پتہ وہ سن 2001ء میں بھی کھیل چکے ہیں جب انہوں نے 150سالہ خدمات دارالعلوم دیو بند کانفرنس منعقد کی تھی اگرچہ اس وقت بھی دارالعلوم دیو بند کے قیام کوپورے 150 سال نہیں بلکہ 135 سال ہی ہوئے تھے لیکن 9اپریل 2001ء کو یہ بھر پور کانفرنس منعقد ہوئی اور لاکھوں افراد کی اس میں شرکت نے جمعیت علماء اسلام کوخیبر پی کے میں بڑی قوت بنا دیا تھا اور 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں افغانستان پر امریکی حملے اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اشتراک سے بننے والی مجلس عمل نے خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلی جمعیت علماء اسلام کی جھولی میں ڈال دی اس لیے برادر بزرگ خورشید ندیم اس مرتبہ تو قمری شمسی تکوینوں میں الجھا کر شاید عوام کو الجھانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن 150 سالہ خدمات دارالعلوم دیو بند کانفرس 135 سال پر منعقد کرنے پر جانے اب وہ کون سی توجہیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس اجتماع کو 2018ء کے الیکشن کی تیاری کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں اور وہ اس میں یقیننا کامیاب بھی رہیں گے اگرچہ انہوں نے جمیعت علماء ہند کے کے تاسیسی سال کی نسبت سے یہ منا کر ایک خطرناک جواء کھیلا تھا کیونکہ جمعیت علماء ہند کو قیام پاکستان کی شدید مخالفت اور ہندو کانگریس کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی جعمیت علماء اسلام اسی مخالفت کا شاخسانہ تھی۔ اس اجتماع سے مولانا فضل الرحمان نے اپنی جمعیت کا تاریخی تعلق اعلانیہ طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علماء اسلام کے بجائے مولانا حسین احمد مدنی کی جمعیت علماء ہند سے جوڑ دیا ہے ۔وہ ہی مولانا حسین احمد مدنی جن کے خلاف علامہ اقبال نے خاصے سخت اشعار بھی کہے تھے اور جو تحریک پاکستان اور قیام پاکستان اور اس وقت کی مسلم لیگ اور اس کے اکابرین کے خلاف سخت زبانی استعمال کرنے کے لیے کانگریس سے بھی کئی ہاتھ آگے تھی ،،، اگرچہ جمعیت علماء اسلام کا نظریاتی حامی حلقہ ہمیشہ جمعیت علماء اسلام کو ان الزامات سے بری الذمہ قراردینے کی کوشش کرتا رہا ہے اور مفتی محمود صاحب سے منسوب یہ بیان کہ "" ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے "" کی مختلف تاویلیں بیان کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اب مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اپنی سیاسی تاریخ کا تعلق جمعیت علماء ہند سے اعلانیہ طور پر جوڑنا ان کے لیے تاریخی طور پر کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا ۔
اس سے قطع نظر یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ موجود حالات اور ان کی سیاست کے تناظر میں مولانا فضل الرحمان کا یہ اقدام دیو بند مسلک میں ان کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا ، اور وہ دیو بند مسلک کے واحد اور مسلمہ لیڈر بننے میں کامیاب ہو جائیں گے اس طرح وہ ایک طرف تو اپنے روایتی حریف مولانا سمیع الحق کو ماضی کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہیں وہ جماعت اسلامی کی جانب سے دیو بند مسلک سے تعلق رکھنےو الے مذہبی حلقے میں قدم جمانے کی کوششوں کو بھی فل سٹاپ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔جماعت اسلامی جو طویل عرصے سے خیبر پی کے میں دیو بند مسلک سے تعلق رکھنے والی مذہبی سیاسی سوچ رکھنے والی عوام کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے وہ اس ایک ہی وار سے کئ برس پیچھے چلی جائے گی ، کیونکہ دیوبند مسلک اور جماعت اسلامی کے درمیان عقائد کے مسئلے پر سخت اختلافات موجود ہیں اگرچہ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کا غالب حصہ اب دیو بند مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہی مشتمل ہے لیکن جماعت اسلامی کے بارے میں جس قسم کے فتوے ماضی میں دیوبند مسلک کی جانب سے دیے جاچکے ہیں ان کو عام علماء کرام کے ذریعے دوبارہ عوام کے ذہنوں تک پہنچانا چنداں مشکل نہیں ہے اس لیے اگر اس اجتماع کو مولانا فضل الرحمان کی بروقت سیاست کے ایک حصے کے طو رپر دیکھا جائے تو غلط نہ ہو گا اور جس طرح کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بن جائے اور ماضی میں دیو بند مسلک سیاسی اور مذہبی دونوں حوالے سے اتنا بڑا اجتماع نہ کر سکا ہو۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ مولانا فضل الرحمان کو دیو بند مسلک کا بے تاج بادشاہ بنا دے گا اور ان کو وہ مقبولیت اور اثر ورسوخ اور قوت حاصل ہو جائے گی جو نہ تو احراری قائدین کو حاصل ہوئی تھی اور نہ ہی تبلیغی جماعت کے بزرگوں کو ، نہ سپاہ صحابہ جیسی تحریک کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی کو اور نہ مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا اجمل قادری کو نہ ہی مفتی محمد شفیع اور مفتی تقی عثمانی جیسی علمی شخصیات اس مقام تک پہنچ سکیں اور نہ ہی طالبان کے بزرگ ہونےکے دعویدار مولانا سمیع الحق اس مرتبے تک پہنچ سکے ، اگر ایسا ہو گیا تو آئندہ انتخابات کے لیے جمعیت علماء اسلام کی حکمت عملی شاید بالکل مختلف ہو جائے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔