پانامہ کیس پر اٹھنے والے چبُھتے سوالات
’’یہ کافی نہیں کہ عدلیہ بطور ادارہ صرف آزاد ہو۔ انفرادی طور پربھی ججز کو غیرجانبدار اور معروضی ہونا چاہیے۔ انہیں وکلا، کلائنٹس اور گواہان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور انہیں لازماً ایسے کمنٹس، ریمارکس سے پرہیز کرنا چاہیے جن سے اندازہ ہوتا ہو کہ وہ اپنا کیا ذہن بنا چکے ہیں‘‘
ضابطہ اخلاق۔کینیڈین ایسوسی ایشن آف سپیرئیر ججز
پانامہ کیس کی سماعت تمام ہو چکی، مگر یہ غیر معمولی سماعت کئی نمایاں سوالات اپنے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ قانون کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میرے لئے اس میں کئی نئے استفسارات اورحیرتیں تھیں۔ مثلاً شاذونادر ہی ایسا کوئی دن گزرا ہوگا جب عدالت کے ریمارکس میڈیا کی شہ سرخی نہ بنے ہوں۔ طالب عِلم ہونے کے ناطہ سے میرے لئے اس میں حیرتوں کے کئی جہان آباد ہوتے۔ مثال کے طور پر فرمایا گیا ۔
’’اگر آرٹیکل 62, 63 کے تحت تمام پارلیمنٹیرینز کا جائزہ لیں تو صرف سراج الحق ہی بچیں گے‘‘
’’ہمارے لئے آج نیب وفات پا گیا‘‘
’’دادا وفات پا گئے، پوتے کے پاس حساب نہیں، پھر تو ایک ہی شخض بچتا ہے‘‘
’’کیا 12 ملین درہم کی رقم اونٹوں کی کمر کے اوپر رکھ کر لے جائی گئی؟‘‘
اگر چہ یہ صرف چند نمونے ہیں اور ان میں سے کچھ ریمارکس پر بعد میں معذرت یا وضاحت کر دی گئی مگر نہایت ادب سے سوال یہ ہے کہ ایسے الفاظ/ریمارکس کیوں دئے جاتے ہیں جنہیں واپس لینا پڑجائے۔یہاں پر تو یہ لگ رہا تھا کہ پاپولرازم کی لہر اب گویا عدالتِ عظمیٰ تک کو بھی متاثر کرچکی ہے۔
دوسری طرف اْن دنوں شریف فیملی کا جو میڈیا ٹرائل ہوا، ٹی وی پروگراموں میں جمہوریت مخالف اینکرز اور ریٹنگ کے شیدائی ان ریمارکس کو لے کر کئی طرح کے رنگ پہناتے رہے۔سنجیدہ حلقوں اور وکلا کی طرف سے بار بار درخواستوں کے باوجود اس تماشے کو روکنے کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ قانون کے طالبعلموں کے لئے بھی یہ انوکھی بات تھی۔ کیا واقعی معاشرے میں غیرمحتاط گفتگو کا چلن اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی اس علت سے محفوظ نہیں رہیں!ہمارے دوست اور مفکر جناب خورشید ندیم کو اس کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے۔
مگر مقامِ شکر ہے کہ ان معاملات میں اس غیر معمولی پن پر صرف مجھے تعجب نہیں ہوا بلکہ سینئر قانون دان بھی تشویش میں مبتلا نظر آئے جن کی ترجمانی جناب عابد حسن منٹو ایڈوکیٹ نے ایک ٹیلی ویژن پر یوں کی ’’پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لے تو لیا ہے مگر اس کے لئے کسی پروسیجر یا ضابطء کار کا تعین نہیں کیا جس کی وجہ سے سماعت کنفیوژن کا شکار ہے۔ عدالت کو اپنے ضابط کار کا تعین کرنا چاہیے۔‘‘
اخبارات میں بہت سے کالم لکھے گئے، ٹی وی پر بہت سے تبصرے کئے گئے ہیں جن میں کوشش کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ پر اپنے من پسند فیصلے کا دباؤ ڈالا جائے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری اور فیصل چودھری اکثرو بیشتر نہایت غیر مستند بلکہ فضول گفتگو کرتے پائے گئے۔ کبھی میاں شریف کی قبر کے ٹرائل کے طعنے دئے گئے، تو کبھی 12 ملین درہم کی رقم 12 بلین درہم بنا کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔ دونوں ماشاء اللہ قانون دان ہیں اور قانون دان آفیسر آف کورٹ ہوتا ہے۔انہیں اپنے بیانات کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے پر پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔
اب کچھ بات ہو جائے ان کالم نگاروں اور اینکرز کی جو میاں محمد نواز شریف کو نااہل کرانا چاہتے ہیں یا میڈیا ٹرائل کے ذریعے ان پر دھبے لگانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ صرف ایک صورت ہے جس کے ذریعے آپ کا من چاہا فیصلہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ثابت کردیں کہ دبئی سٹیل مل کا تو کوئی وجود تھا ہی نہیں یا اس مل کے کاغذات شریف فیملی نے کسی اور مالک سے چرا کر پیش کئے ہیں۔
میری دانست میں شریف فیملی46 سالہ پرانے تمام دستیاب کاغذات پیش کر چکی ہے۔ دبئی سٹیل مل کے قیام، حکومتِ دبئی کی جانب سے زمین لیز پر دئیے جانے کے اجازت نامے پیش کئے جاچکے ہیں۔ بعد ازاں 75 فی صد شیئرز کی فروخت کے ذریعے بینک کے واجبات کی ادائیگی کا معاہدہ جس میں بی سی سی آئی بھی شامل تھا عدالت میں جمع کرائے گئے۔ یہ بھی دستاویزات سے ثابت کیا گیا ہے کہ بعد ازاں بھی طارق شفیع اس مل میں 25 فی صد شیئرز کے حصہ دار تھے جنہیں بیچ کر 12 ملین درہم حاصل ہوئے جو بعد ازاں قطری شاہی خاندان کے ہاں پراپرٹی کے کاروبار میں انویسٹ کئے گئے۔ یاد رہے کہ یہ 12 ملین درہم اکٹھے وصول نہیں ہوئے تھے، بلکہ 2 ملین درہم کی 6اقساط میں ملے تھے جنہیں بصورت کیش قطری خاندان کے حوالے کرنا اس دور کے حوالے سے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خلیجی ملکوں میں اب بھی بلکہ دور کیوں جائیں فیصل آباد، گوجرانوالہ میں بڑے بڑے سودے نقد پر طے پاتے ہیں۔ اگر نقد سودوں پر نا اہل کرانا مقصود ہے تو پاکستان کے ہزاروں لو گ نا اہل قرار پائیں گے۔
ایسا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا جب ایک ڈیڑھ سال پہلے گوجرانوالہ سے میرے ایک عزیز دوست ایک بڑی رقم لے کر میرے گھر آگئے اور مجھے کہنے لگے کہ یار تم لاہور کی پراپرٹی کی کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہو، میرے پیسے بھی اپنے سودوں میں لگا دو۔ مجھے آپ پہ بالکل اعتماد ہے۔میں نے انہیں ان پیسوں کی ایک سادہ کاغذ پر رسید بنا کر بطور یادداشت ان کے حوالے کر دی۔ حالانکہ انہیں ضرورت نہیں تھی مگر میرے لئے ان کے پیسے امانت تھے۔یہ واقعہ تو خود میرے ساتھ پیش آیا جبکہ پاکستان میں ہزاروں ایسے واقعات ہر سال ہوتے ہیں۔ ہر دس خاندانوں میں سے ایک خاندان ضرور ایسا ہو گا جہاں بھائی دوسرے بھائی کے Behalf یا ہمشیرہ /یا دیگر رشتے داروں کے Behalfپر کاروبار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کراسڈ چیک / Pay order تو 9/11 کے بعد ہونے والے قوانین میں تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں وگرنہ پہلے تو زمین کے تمام سودوں میں نقد ادائیگی ہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ کوئی بھی چیک کسی بھی اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتا تھا۔ قطر کے شہزادے کے خطوط کا آپ جتنا مرضی مذاق اڑا ئیں مگر جیسا کہ معروف وکیل بابر ستار نے بھی کالم میں لکھا کہ یہ کہانی بظاہر کتنی ہی ناقابلِ اعتبار نظر آئے مگر اس کا صحیح ہونا عین ممکن ہے اور کسی مخالف ثبوت کی عدم موجودگی میں اسے ہی درست سمجھا جائے گا۔
اب جہاں تک آف شور کمپنیوں کی بات ہے تو ان کے پیچیدہ سٹرکچر کا معاملہ ہے تو آپ گوگل کر لیں، آپ کو معلو م ہو جائے گا کہ یہ پیچیدہ سٹرکچر کارپوریٹ لا کی Delicaciesکا حصہ ہیں اور غیرقانونی ہرگز نہیں۔ انہیں بھی کارپوریٹ لا فرم ہی پلان اور اہتمام کرتی ہیں۔ میرا مخالفین سے صرف ایک سوال ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ کیا وزیرِ اعظم کی کرپشن کے بارے میں ثبوت کے نام پر کوئی ذرّہ بھی پیش کیا گیا ہے؟ پھر یہ کیوں فرض کیا جائے کہ یہ اپارٹمنٹس کرپشن کی رقم سے خریدے گئے ؟ پاکستان کے رہنے والے ہر شحض کو جس کی عمر 40 سال سے اوپر ہے ’’اتفاق‘‘ کے ایک کامیاب اور قدیمی بزنس ادارے کے ہونے کے بارے میں معلوم ہے۔ میرے بہت سے بزرگ دوست ایوب دور کے واقعات سناتے ہیں جب اتفاق کا نام اعتماد کی ضمانت تھا اور ایک کوالٹی برانڈ تھا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھٹو حکومت نیشنلائزیشن کی پالیسی کے نام پر معروف بزنس مینوں کو ان کی جائیدادوں، کاروباروں اور ان کے بینک اکاؤنٹس سے محروم حتیٰ کہ راتوں رات قلاش کر رہی تھی اور پاکستان کے بڑے بڑے بزنس مین راتوں رات محاورے کے مطابق ہی نہیں بلکہ عملاََ سڑک پر آچکے تھے تب پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کہاں تھی اور اس نے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کیا؟ کیوں نہیں ان کے نقصان کی تلافی کی گئی؟
میں جب پہلی بار معروف کالم نگار اردشیرکاؤس جی سے ملا تو ان کے برآمدے میں دو بڑے بحری جہازوں کے ماڈل دیکھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ رستم اور سہراب ہیں جنہیں بھٹو حکومت نے قومیا لیا تھا۔ یہ دونوں ماڈل پینٹر کی دکان پر پڑے تھے اس لئے بچ گئے۔ جب میں نے ان سے ان کی مالیت پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ دونوں جہاز اْس وقت یعنی 1972 میں کروڑوں روپے کی مالیت کے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں اردشیر کاوس جی بھٹو کے قریبی دوست حتیٰ کہ ان کی شادی میں گواہ بھی تھے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 22 معروف کاروباری خاندانوں میں سے اکثر نے جن کے تمام اثاثے" ریاستی ڈاکے" کے ذریعے قومیا لئے گئے تھے جلاوطنی اختیار کی۔مثلاً حبیب فیملی نے سوئیزرلینڈ اور دیگر ممالک میں بینک قائم کیے۔ آج بھی حبیب بینک اے جی زیورخ کے نام کے آخر میں لکھا ہوا زیورخ ہمیں اس تلخ واقعے کی یاد دلاتا ہے۔
میاں محمد شریف مرحوم کا دبئی میں حکمران خاندان کی دعوت پر اسٹیل مل قائم کرنا، اپنی بجائے بھتیجے کو مالک بنانا اور کچھ منافع وہیں مشکل وقت کے لئے چھوڑ آنے کے فیصلے بالکل منطقی لگتے ہیں۔ جس شخض سے سب کچھ چھین لیا گیا ہو اور چھیننے والا بھی کوئی اور نہیں بلکہ ریاست ہو۔۔ اس کا بیرون ملک کچھ رقم سرمایہ کاری میں لگانا اور اسے وہیں پڑے رہنے دینا۔۔ یہ سب سمجھنا ایک معقول ذہن کے لئے قطعی مشکل نہیں۔ جس شخض کے گھر میں چوری بھی ہو جائے وہ بھی بقیہ زندگی پھونک پھونک کر گزارتا ہے یہاں تو عمر بھر کی کمائی لوٹ لی گئی تھی۔ یہ بھی شومئی قسمت ہے کہ میاں محمد شریف جس مشکل وقت سے ڈرتے تھے۔۔۔ وہ پھر ان کی زندگی میں 1999ء کی فوجی آمریت میں دوبارہ آگیا۔ شریف خاندان کی ہر چیز حتیٰ کہ کاغذات بھی قبضے میں کر لیے گئے تھے۔ معروف کالم نگار رؤف طاہر صاحب بتایا کرتے ہیں کہ میاں محمد شریف مرحوم اتنے خوددار تھے کہ سعودیہ قیام کے کچھ ہی دن بعد انہوں نے کہا کہ حکومتِ سعودیہ کی جانب سے جو ان کے اخراجات بطور مہمان ادا کئے جاتے ہیں وہ یہ اخراجات بھی خود برداشت کرنا چاہیں گے۔ نتیجتاً سعودیہ میں پھر ایک اسٹیل مل لگائی گئی اور حسین نواز جنہیں ان کے دادا کاروباری جانشین سمجھتے تھے اور کیپٹن صفدر کو حکم تھا کہ 9بجے وہ گاڑی میں بیٹھ جایا کریں۔ ایسا بھی ہوا کہ دونوں کبھی لیٹ ہو جاتے تو گاڑی 09:05 پر میاں محمد شریف کو وہیل چیئر سمیت لئے سٹیل مل کوروانہ ہو جاتی۔
ایسے خوددار اور باوقار بزنس مین کے بارے میں طرح طرح کے الزامات لگانا نہایت شرمناک اور گھٹیا پن ہے۔جو لوگ والدین اور بزرگوں کا احترام کرنا نہیں جانتے وہی اس طرح کا رویہ اپنا سکتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ 2000 ء میں شاہین صہبائی جو آجکل شریف خاندان کے بڑے ناقد ہیں، نے بڑے میاں صاحب سے ملاقات کے بعد ان کے بارے میں ایک تعریفی کالم ’’ڈان‘‘ میں لکھا تھا۔ لکھے ہوئے لفظ کی مصیبت یہ ہے کہ وہ بیوفائی نہیں کرتا، آئینے کا کام کرتا ہے۔انسان اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔
ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے قطر کے کاروبار کا ذکرنہ کر کے تضاد بیانی کی۔ کیا یہ اعتراض اٹھانے والے لوگ تضاد بیانی کا مطلب بھی جانتے ہیں؟ وزیرِ اعظم اپنی تقریر میں اپنی فیملی کے بزنس کے بارے میں ایک عمومی اور مختصر وضاحت دے رہے تھے نا کہ کسی عدالت میں سوالات کے نتیجے میں جوابات! اگر اسی طرح کی تضاد بیانی پر 18 کروڑ عوام کے منتخب کردہ وزیرِ اعظم کو نااہل قرار دینا ہے تو پھر اس ملک کے عوام کی اکثریت بھی نا اہل قرار پائے گی اور عمران خان کم از کم 100بار نا اہل قرار پائیں گے۔اور اگر کسی ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی میں منتخب وزیراعظم کو صرف سازشی مفروضوں پر نااہل قرار دینا ہے تو پھر قانون شہادت سمیت پاکستان کے تمام قوانین کوبحیرہ عرب میں پھینک دینا چاہیے !
ایک سوال اسحاق ڈار کے حلفیہ بیان کے بارے میں بھی اٹھایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں تو ایک تھانیدار ایک ملزم سے 24گھنٹے میں ورلڈ بینک کی چوری کا بھی اعترا ف کرا سکتا ہے تو پھر کیا فوجی آمریت پولیس کے دباؤ اور تشدد سے کم تر ہوتی ہے؟ کسے یاد نہیں کہ جو کوئی احتجاج کرنے نکلتا تھا تو اسے ڈنڈا ڈولی کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھاحتٰی کہ سابق وزرا کو بھی نہیں بخشا گیا۔اگر فوجی حراست کے دوران دئیے گئے بیان کو تسلیم کرنا ہے تو پھر پاکستان کا سارا نظامِعدل بدلنا پڑے گا۔
لیکن میرا سوال مختلف ہے۔ جب 1999ء میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تب اس ملک کی اعلیٰ عدالتیں بنیادی حقوق کی بحالی کے لئے کیا کر رہی تھیں؟
ایک سوال اور بھی ہے جو بصدِ ادب پوچھا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے تو ان پی سی او ججوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا جو ایک آمر جنرل مشرف کے ساتھی تھے۔ بلکہ انہیں پنشن اور مراعات بھی دیں۔ کیا یہ پوچھنا حقِ بجانب نہ ہو گا کہ کم از کم انہیں جج کے لقب اور پنشن سے محروم کر کے ہی کوئی مثال قائم کر دی جاتی۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ سیاسی لیڈرتوقیام پاکستان کے بعد سے ہی نشانہ پر ہیں۔ ایوب دورمیں ایبڈو کے بدنام زمانہ قانون کے تحت جب سیاسی لیڈروں کی سیاسی زندگی ختم کردی گئی تو سیاسی بحران پیدا ہوا جو مشرقی پا کستان کے بحران کی ایک وجہ بھی تھا۔ پھر یہ احتساب کا نعرہ ایک اور آمر ضیاء الحق نے لگا یا، پھر جنرل مشرف نے بھی یہ نعرہ لگا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ آخر ہم کب تک اپنے سیاسی رہنماؤں کو ووٹ کی بجائے کورٹ کے ذریعے Eliminate کرنے کی روش جاری رکھیں گے حالانکہ آ ئین پاکستان کے مطابق حاکمیت اللہ تعالیٰ کے بعد عوام کا اختیار اور حق ہے۔ پھر ہم عوامی اجتماعی دانش پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے مطابق ہاتھیوں کو چھوڑ کر مچھروں کو نہیں چھاننا چاہیے۔ وطن عزیز کے حقیقی مجرم تو ببانگِ دہل بیرون ملک مزے کر رہے ہیں اور کچھ چلّے اور تبلیغی دورے (غالباً تالیف قلب کے لئے)کرتے پھرتے ہیں۔
عمران خان جو دہشتگردی عدالت کے اشتہاری مجرم ہیں دندناتے ہوئے سپریم کورٹ تو جاتے ہیں ماتحت عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوتے؟ عمران خان اپنے حساب کے لئے دس سال کی حد مانگتے ہیں تو شریف فیملی کا حساب 46برسوں سے کیوں؟جہانگیر ترین انسائڈر ٹریڈنگ کا اعترف کر کے رقم واپس کر چکے ، اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو ابھی تک جیل میں ہوتے مگر ہمیں اب وہ قانون کی پاسداری کے خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔