سندھ کے غازی مولانا عباسی ؒ کی یادیں
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان: مولانا جان محمد عباسی جماعت اسلامی کے مرکزی قائد اور انتہائی دیدہ ور سیاست دان تھے۔ مولانا 27؍اپریل 2003ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ان کی یادوں سے آج بھی دریچۂ دل منور ہے۔ مولانا عباسی کو سندھ کا غازی کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کے اندر غازی اورمجاہدکی صفات پوری طرح موجود تھیں۔ وہ حق کے علمبردار اور باطل کے مقابلے پر ننگی تلوار تھے۔
زبان شیریں، مؤقف مضبوط اور ثابت قدمی و استقامت کے خوگر۔مولانا عباسی شروع ہی سے ایک سیاسی اور دینی شخصیت تھے۔ سندھ کی دھرتی پر وڈیروں اور جاگیرداروں کی ہر میدان میں اجارہ داری ہے۔ میدانِ سیاست میں ان کے خاندان یا ان کے گماشقوں کے علاوہ کوئی دوسرا کامیابی حاصل کر لے تو سمجھیے کہ اللہ نے اسے خاص کرشماتی شخصیت عطا فرمائی ہے۔
ایوب خان کی آمریت کا نشانہ اگر کوئی سیاسی جماعت بنی تو وہ جماعت اسلامی تھی۔ مولانا عباسی مرحوم لاڑکانہ میں ایوب خان کے دور میں کونسلر اور یونین کونسل کے چیئر مین رہے۔ ایک میقات کے بعد اگلے الیکشن میں حکومتی دباؤ کے باوجود پھر چیئرمین بن گئے۔
بطور چیئرمین ان کی دونوں میقاتوں میں ایسے فلاحی اور انقلابی کام ہوئے کہ بعض مقامی ساتھیوں کے بقول اس نیک نامی کا پھل بعد میں مولانا کے بڑے بیٹے قربان علی عباسی صاحب نے کئی مرتبہ سمیٹا۔ قربان علی بلدیہ لاڑکانہ کے چیئرمین سے لے کر تحصیلی حکومت کی چیئرمینی (نظامت) تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
مولانا عباسی مرحوم کی وفات کے بعد کراچی میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کے مکان کے باہر منعقدہ تعزیتی تقریب میں مجھے شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس موقع پر میں نے عرض کیا تھا کہ جناب قربان علی صاحب اور مولانا کے دیگر بچگان، بھائی ڈاکٹر نور محمد صاحب اور اعزہ و اقارب کی موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آج جماعت کے بزرگ راہ نما پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کی تائید سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا عباسی مرحوم کوخراج تحسین پیش کرنے کا بہترین اور موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی اولاد پوری ذمہ داری کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلے۔ مولانا کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔
ان کا کردار بے داغ ہے اور ان کی جرأت و عزیمت کو اپنے اور بیگانے سبھی سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اتنے عظیم باپ کی باوسائل اولاد کو اس عظمت کی لاج رکھنی چاہیے۔ مولانا کے اعزہ نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ سندھ کے اس غازی کامشن جاری رکھنے میں وہ بھر پور کردار اداکریں گے۔
مولانا جان محمدعباسی صاحب نے سیاسی میدان میں 1970ء کے انتخابات میں لاڑکانہ سے علاقے کے جاگیردار اور وڈیرے ممتاز علی بھٹو صاحب کامقابلہ کیا، پھر قومی اتحاد کی تحریک میں 1977ء کے انتخابات میں انھیں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے پر نامزد کیاگیا۔ بھٹوکے مقابلے پر کاغذات نامزدگی داخل کرانا کسی عام آدمی کے بس کا کام نہ تھا۔
دیگر پارٹیوں کے بھاری بھرکم لوگ بھی اس بھاری پتھر کو اُٹھانے سے گریزاں تھے۔ اتحاد نے مولانا کو نامزد کیاتو آپ اس فیصلے کے مطابق میدان میں اترے لیکن منتقم مزاج وڈیرہ شاہی نے مولانا کو کاغذات جمع کرانے کی تاریخ سے قبل ہی درجن بھر کارکنان کے ساتھ گرفتار بلکہ اغوا کیا اور کچے کے علاقے میں دریائے سندھ کے کنارے ایک ڈاک بنگلے میں مقید رکھا۔
اس دوران وہ مولانا کو ذہنی اذیت بھی دیتے رہے اور رات کے وقت دریا میں پھینک دینے کی دھمکیاں بھی بار بار دیں۔ مولانا ان کی ہر دھمکی کے جواب میں مسکرا کر کہتے کہ ہمارے لیے یہ تمام حربے کوئی نئے نہیں۔ جوخدمت تمھیں سونپی گئی ہے تم اس کے پابند ہو اور جس فرض کی ادائیگی کا ہم نے عہد باندھا ہے، اس کے تقاضوں کو ہم جانتے ہیں۔ کاغذات داخل کرانے کی تاریخ گزرنے کے بعد مولانا کو ان کے ساتھیوں سمیت چھوڑ دیا گیا۔ یوں بھٹو سائیں بلا مقابلہ منتخب ہوگئے!
اس زمانے میں بھٹو نے مولانا جان محمد عباسی صاحب کا نام لے کر ان پر ایسا کیچڑ اچھالا کہ ہر شریف آدمی کو گھن آنے لگی۔ وہ اپنی جاگیر، دولت اور جھوٹی خود ساختہ بڑائی اور مولانا کی درویشی و کم مائیگی کا اظہار اتنے سوقیانہ انداز میں کرتا تھا کہ شرافت سر پیٹ کر رہ گئی۔
اس زمانے میں و ہ مولانا کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کا نام بھی بگاڑ دیا کرتا تھا۔ انھیں ساری دنیا جان محمد عباسی کہا کرتی تھی لیکن بھٹو انھیں جانوں کہہ کر پکارا کرتا تھا۔
میں نے ایک مرتبہ مولانا کی زبانی سنا، مولانا اپنے ہلکے پھلکے مجلسی انداز میں فرمانے لگے کہ بھٹو سائیں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ تنا بز (نام بگاڑنا) ان کے لیے گناہ ہے مگر میں اس سے محظوظ ہوتا ہوں۔ مجھے بچپن میں میرے والد پیار اور شفقت سے گھر میں جانوں کہہ کر ہی پکارتے تھے۔والد مرحوم کی زبان سے انتہائی شیریں لہجے میں لفظ ’’جانوں‘‘ سنتا تو مجھے احساس ہوتا کہ وہ انتہائے محبت سے مجھے اس نام سے پکارتے ہیں۔
واقعی عظیم لوگوں کی عظمت ہر جگہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔ تختہ دار ہو یا کوچہ رقیب، تخت شاہی ہو یا محفل استہزا، یہ سربلندہی ہوتے ہیں۔ حاسدین ان کے بارے میں جوکچھ بھی کہیں قدرت ان کی خود محافظ ہوتی ہے۔
اب قدرت کا فیصلہ دیکھیے کہ جان محمدعباسی صاحب 1977ء کے مذکورہ بالا جعلی انتخابات کے بعد جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے مجمع عام ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیتا اور عوام وخواص ان نعروں کی گونج میں ان کا استقبال کرتے ’’سندھ کا غازی، جان عباسی‘‘۔بقول حکیم الامت علامہ اقبال
یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی
اس کے برعکس ہر بچے کی زبان پر بھٹوصاحب کے لیے ویسے ہی الفاظ ہواکرتے تھے جو ان کی پارٹی نے ’’ڈیڈی ایوب‘‘ کے لیے ایجاد کیے تھے۔
مولانا نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ 1963ء میں جماعت اسلامی پرپابندی لگائی گئی۔ مولانا مودودی ؒ اور مرکزی مجلس شوریٰ کے تمام ارکان حوالہ زنداں کیے گئے، مولانا جان محمد عباسی کو بھی اس دور ابتلا میں مولانا مودودی ؒ کے ساتھ گرفتار ی کا اعزاز حاصل ہوا۔
قومی اتحاد کی تحریک میں بھی ان کوکئی مرتبہ گرفتار کیا گیا، اس عرصے میں مولانا جماعت اسلامی پاکستان کے قائم مقام امیر بھی رہے اور کچھ دنوں کے لیے دیگر قائدین کی گرفتاریوں کی بنا پر پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کا فرض بھی ادا کیا۔
سابق قیم جماعت و مرکزی نائب امیر محترم چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب کے بقول اس تحریک کے دوران کئی نشیب و فراز آئے، جس میں مولانا عباسی صاحب کی فراست و ذہانت اور قوتِ فیصلہ نے بڑے معرکے سر کیے۔
ایسا ہی ایک واقعہ اس تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی مولانا مودودی ؒ کے پاس ان کی رہائش 5۔اے، ذیلدار پارک میں حاضری بھی تھی۔ بھٹو صاحب، مولانا سے ملنے کے لیے آئے اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ملک جس مشکل صورت حال سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے لیے آپ سے راہ نمائی لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، یہ ملاقات ذرائع ابلاغ میں بہت مشہور ہوئی اور ہماری تاریخ کا حصہ بن گئی۔ مولانا مودودی ؒ نے تو خیر قومی جذبات اور عوامی مفاد کے پیشِ نظر بھٹو صاحب کی ساری زیادتیوں کے باوجود انھیں ملاقات کا نہ صرف موقع دیا بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو ہدایت کر دی کہ مہمان کی آمد پر کسی قسم کا کوئی نعرہ یا شور ہرگز نہ کیا جائے۔ مولانا کی ہدایات پر مکمل عمل کیا گیا۔
مولانا جان محمدعباسی صاحب ان دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ میاں طفیل محمد صاحب کو بھٹو حکومت نے جیل میں ڈال دیا تھا۔
عباسی صاحب کو اس ملاقات کا پتہ چلا تو فوراً مرشد مودودی ؒ سے ملاقات کی اجازت لے کر اچھرہ پہنچے۔ مولانا مودودیؒ نے بھٹو صاحب کے ساتھ اپنی ملاقات کی روداد بیان کی اور اپنا موقف دہرایا جو بھٹو صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ یہ موقف انتہائی تسلی بخش تھا۔
اس موقع پر مولانا جان محمدعباسی صاحب نے بانی تحریک سے بڑے ادب و احترام سے عرض کیا کہ بھٹو صاحب ا س ملاقات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔
اس لیے کسی قسم کی غلط فہمی یا گمراہ کن خبر (Disinformation)سے بچنے کے لیے فوراً ساری تفصیل قوم کے سامنے پیش کر دینی چاہیے، مرشد مودودی ؒ کا پہلے سے ہی یہ خیال تھا لیکن انھوں نے اس سے اگلے روز پریس کانفرنس کا ارادہ کر رکھا تھا۔
مولانا عباسی صاحب نے عرض کیا کہ اگلے روز نہیں پریس کانفرنس آج ہی ہونی چاہیے۔ مولانانے ان کی اس صائب رائے سے اتفاق کیا اور ناظم شعبہ نشرواشاعت صفدر علی چودھری کی ذمہ داری لگی کہ تمام صحافیوں تک فوری دعوت نامے پہنچائیں۔
انھوں نے پوری بھاگ دوڑ کر کے چند گھنٹوں میں یہ سارا کام مکمل کر لیا۔ چناں چہ اسی روز پریس کانفرنس ہوئی، جس میں تما م قومی اور بین الاقوامی پریس کے نمایندے بھر پور انداز میں موجود تھے۔
مرشد مودودی ؒ کی اس پریس کانفرنس نے حکومتی عزائم اور بھٹو کی چالوں کو خاک میں ملا دیا۔