"اشفاق احمد خود نہیں لکھتے تھے بلکہ۔۔۔‘‘ اردو ادب کی جان اشفاق احمد کا وہ روپ جسے دیکھ کر آپ حیرتوں کے سمندر میں ڈوب جائیں گے
لاہور(ایس چودھری)اردوب میں تصوف اور فلسفہ سے گمراہی اور جہالت کو دور کرنے والے ادیب اشفاق احمد پر بھی وہ الزام لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو قدرت اللہ شہاب پر تھوپا گیا کہ وہ خود نہیں لکھتے تھے ،کسی اور نے ان کی بہت سی تصانیف ،افسانے،اور ڈرامے لکھے ۔
متعصب ادیبوں کے چٹکی بھر گروہ کو اشفاق احمد سے خاص پرخاش تھی کہ انہوں نے ادیب کو صوفی کیوں بنادیا ۔ادب کو ننگا اور آزاد رکھنے کی جبلت کے ماروں کو اشفاق احمد پر الزام تھوپنے میں بڑا مزہ آیا کرتا تھا لیکن وہ یہ کبھی کھلے عام تنقید کرسکے نہ کوئی ایسا ثبوت پیش کرسکے ۔ان مخصوصۂ فکرلوگوں نے تو بانو قدسیہ کے راجہ گدھ پر بھی یہ مفروضہ قائم کرلیا تھا کہ اس میں بانو کے علاوہ کسی اورکی جھلک ہے لیکن اس کے لئے وہ کوئی دلیل پیش نہیں کرسکے۔اشفاق احمد اور بانو آپا سے راقم کی خود کئی بار انکے گھر داستان گو میں ملاقاتیں ہوئیں،انٹرویوز بھی کئے ۔ان کی گفتگو میں وہ تلقین شاہ موجود نظر آیا جسے ٹی وی اور ریڈیو پر دیکھا سنا جاتا رہا ۔ایک بار میں نے اشفاق صاحب سے کہا کہ میں لکھتے رہنا چاہتا ہوں لیکن روزانہ نہیں لکھا جاتا ،موڈ نہیں بنتا تو مجھے کیا کرنا چاہئے۔
اس پر انہوں نے جھٹ سے کہا کہ ایسا کبھی نہ سوچنا ،موڈ کے تابع ہوکر نہیں لکھنا ۔بس لکھنا ہے اور یہی عمر لکھنے کی ہے۔ابھی تم نے آسودگی کی منزلوں کو پار کرنا ہے۔تمارا رزق قلم سے جڑا ہوا ہے تو ایک مزدور کام سے کیسے رک سکتا ہے۔بانو آپا بتایا کرتی تھیں کہ اشفاق احمد کو انہوں نے کبھی لکھنے میں ناغہ کرتے نہیں دیکھا ،نہ کاغذوں کو پھاڑتے ہوئے دیکھا کہ یہ چیز اچھی نہیں لکھی تو دوبارہ سہ بارہ لکھ لی جائے۔وہ قلم اٹھاتے تھے اور کہانیاں بنتی جاتی تھی۔انکا انہماک اسقدر زیادہ ہوتا تھا کہ لگتا تھا جیسے وہ قلم خود نہیں چلاتے،کوئی ہے جو ان کا قلم چلا رہا ہے ۔جب وہ لکھتے تو حکایات کے دروازے ان کھل جاتے ۔کئی بار راتوں کو اٹھ کر انہیں دیکھتی تو اشفاق احمد تلقین شاہ کا روپ لئے ہوتے تھے ۔رات کے آخری پہروں میں جب وہ لکھ رہے ہوتے تو دنیا و مافہا سے بے خبر ہوجاتے تھے۔