نیب، بیورو کریسی اور حکومت

نیب، بیورو کریسی اور حکومت
نیب، بیورو کریسی اور حکومت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس روزوزیراعظم عمران خان نے شکایت کی کہ بیورو کریسی فائلوں پر دستخط نہیں کر رہی اس لئے حکومت کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سے ایک روز قبل سرکاری ملازمین کے اعلیٰ ترین ادارے سیکرٹریز کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ نیب بدستور سرکاری ملازمین کو پریشان اور ہراساں کر رہا ہے۔

ایک وفاقی سیکرٹری کے مطابق سیکرٹریز چاہتے تھے کہ یہ معاملہ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کے روبرو پیش کیا جائے جو خود بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے، لیکن ایسا نہیں ہو پایا، بعد میں سیکرٹریز نے فیصلہ کیا کہ وہ اجلاس کے اہم نکات کی صورت میں اپنے تحفظات براہِ راست نیب کو بتائیں گے۔ سی ڈی اے کے سابق ممبر بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خودکشی کے حالیہ واقعہ نے سول سروسز کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ ایک سینئر آفیسر نے کہا کہ ایسے حالات میں بیورو کریسی معمول کے مطابق کیسے کام کر سکتی ہے؟ نیب کو بیورو کریٹک کام کی بنیادی سوجھ بوجھ نہیں ،اس لئے اکثر نقائص سے پُر مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔

ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے سیکرٹری کمیٹی بار بار نیب کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے معاملے پر توجہ دے رہی ہے،تاہم صورت حال درست کرنے کے اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ چند ماہ قبل چیئرمین نیب نے سیکرٹری کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرکے یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ نیب وفاقی سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز کو معمول کی انکوائری اور انوسٹی گیشن کے لئے طلب کرنے کی بجائے بیورو کی جانب سے ان کے پاس جا کر کسی بھی ایسے معاملے پر سوالوں کے جواب طلب کئے جائیں گے،جس کے حوالے سے نیب تحقیقات کر رہا ہو گا۔
اس ساری تحریر میں تین فریق سامنے آئے ہیں ۔ایک تو سرکاری افسران ، دوسری حکومت اور سرکاری افسران۔۔۔ جس سے تیسرا فریق ’’حکومت‘‘ متاثر ہو رہا ہے،جس کے کام میں رکاوٹ کے باعث، ملک بھر کا نظام نیچے اوپر ہو سکتا ہے۔ گویا سرکاری افسران کا کردار۔۔۔ حکومت چلانے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اسی لئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی متعدد مواقع پر افسران کو فرائض احسن طریق سے انجام دینے کی تاکید کی ہے، بلکہ قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزرائے کرام تو سیاستدان ہوتے ہیں۔ ان کو ووٹرز کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ غلط / صحیح کام کہتے رہیں گے، اب ذمہ داری افسران کی بنتی ہے کہ وہ صحیح کام کرنے میں دیر نہ کریں اور غلط کام کرنے سے گریز کریں، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں، تاکہ سیاستدان پٹڑی پر آ سکیں۔ ہمیں یہ بات تحریر کرنے میں کوئی باک نہیں کہ دیانتدار، محنتی افسران ہر حکومت میں ہوتے ہیں، جن کی بدولت کاروبارِ حکومت چل رہا ہے، وگرنہ اگر سارے افسران ہی بددیانت اور کام چور ہوں تو بھلا حکومت کے کام کیسے سرانجام دیئے جا سکیں گے؟ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔

اللہ تعالیٰ نے معاشرے کے امور نمٹانے کے لئے۔۔۔ ہر طرح، ہر سطح،ہرصلاحیت کے لوگوں پیدا کئے ہیں، تاکہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام سرانجام دینے کے لئے مناسبِ آدمی میسر ہو سکے۔بہت سے سرکاری افسران کی ذاتی شہرت اتنی اچھی ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی کرنا بھی زیادتی کے مترادف ہو گا۔

ذاتی طور پر ہم جانتے ہیں کہ ایک آفیسر جن کا تعلق آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سے ہے جو پنجاب اور بلوچستان حتیٰ کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کے آفس میں بھی کام کر چکے ہیں اور وہیں سے ریٹائر بھی ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی دیانتدار، قابل، محنتی اور سائلین کے ہمدرد مانے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمات ، موجودہ حکومت کو لینی چاہئیں، جن کی شخصیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔

یہ عین قائداعظمؒ کے ویژن کے مطابق کام کرتے رہے ہیں، یعنی عوام کو سہولتیں پہنچانا ،بلکہ ان کی دہلیز پر جائز کام کرکے بروقت پہنچانا وغیرہ۔ ایک نظر قائداعظمؒ کے ارشادات پر ڈالتے ہیں کہ وہ ان سرکاری افسران سے کیا توقع رکھتے تھے؟ جو درج ذیل ہیں: افسران سے خطاب، پشاور 14اپریل 1948ء۔۔۔’’آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔

آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کے دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے ،بلکہ عوام اور مملکت کے سچے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کرنا چاہیے۔ مملکت کے لئے آپ کی خدمات وہی حیثیت رکھتی ہیں جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے‘‘۔
مزیدبراں آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء کا آرٹیکل 5مملکت سے وفاداری اور دستور و قانون کی اطاعت کی طرف رہنمائی کرتا۔۔۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 10 گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مزید آرٹیکل 10-A حق شفاف کارروائی مقدمہ کی ذمہ داری لیتا ہے۔ ان تمام آرٹیکلز کی روشنی میں عوام کی طرح، سرکاری افسران کو تحفظ بھی دیا جانا چاہیے، جس طرح چیئرمین نیب نے سیکرٹریز کی میٹنگ میں کہا تھا کہ آئندہ ان کو زحمت نہیں دی جائے گی، بلکہ جو ریکارڈ مطلوب ہوا وہ (اپنی تحقیق / تفتیش) کے بعد خود ان حضرات سے رابطہ کریں، تاکہ ان کے روٹین کے کام میں کوئی رکاوٹ کا باعث نہ بنے۔

ڈاکٹر عشرت حسین مشیر وزیراعظم کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور سیکرٹریز کے نیب کے بارے میں تحفظات کے حوالے سے، ان کے علم میں لائیں۔ بطورِ مشیر کوئی مثبت حل بھی تجویز کریں۔ وزیراعظم عمران خان اگر محسوس کرتے ہیں کہ وفاقی سیکرٹریز سرکاری کام کرنے سے گریزاں ہیں تو وہ خود ان کے ساتھ ایک میٹنگ کریں اور ان کے خوف اور ڈر کے تحفظات دور کریں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان، پاکستان کو ’’مدینہ ریاست‘‘ کی طرز پر استوار کرنا چاہتے ہیں اور یہی بات قائداعظمؒ کے ارشادات میں بھی ملتی ہے۔

انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور 13جنوری 1948ء کو فرمایا تھا: ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گار حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -