ایسا پہلی بار نہیں ۔ ۔ ۔

ایسا پہلی بار نہیں ۔ ۔ ۔
ایسا پہلی بار نہیں ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

۲۰۱۹ء میں پاکستان میں معاشی بحران عمران خان کی حکومت نے تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔مٹی کا تیل اور کم سپیڈ والا ڈیزل تین روپے مہنگا ہو گیا۔پٹرول کی نئی قیمت۹۸ روپے ۸۹ پیسے فی لیٹر ہو گئی۔ہائی سپیڈ یزل کی قیمت۱۱۷ روپے ۵۴ پیسے ہو گئی۔
حکومت کے اس اعلان کے بعد عوام پریشان ہو گئی۔کچھ لوگوں کوتوایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یکم اپریل کو عوام کو ہی فول بنا دیا۔ایسا پہلی بار نہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت نے عوام کو پریشان کر دینے والا اعلان کیا۔حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہیکہ جب بھی ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا،توانائی کے بحران نے عوام کو پریشان کیا،بیرونی قرضوں کو چکانے کا مسئلہ ہوا،حکومت نے یا تو مہنگائی میں اضافہ کر دیا یا پھر تیل کی قیمتوں میں۔
جن حالات میں حکومت بنی اور جن مسائل کے بعد بنی،ان معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عالمی بنک نے ایک رپورٹ پیش کی۔عالمی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار پانچ اعشاریہ آٹھ سے گر کر۴ اعشاریہ آٹھ رہ جائیگی۔افراط شرح کی زدمیں اضافہ ہو گا۔مجموعی آمدنی فی فرد ۲ اعشاریہ ۲ ہو گی کہ جو ۲۰۱۸ء کے مقابلے میں کم ہو گی،اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معیشت پچھلے برس کے مقابلے میں انحطاط پذیر ہو گی۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی خوب شور مچایا۔کچھ تو اس انتظار میں ہیں کہ اونٹ کس کروٹ میں بھیٹھتا ہے۔دور جدید میں معیشت اورسیاست بلکہ یوں کہیں کہ بین الاقوامی دنیا بھی معیشت پر انحصار کرتی ہے۔جس ملک کی معیشت کمزور ہو جاتی ہے اس ملک میں کی جانے والی سیاست پر حکومت کی ڈور ڈھیلی پڑ جاتی ہے،اور جو ملک سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہو جاتا ہے ،وہ بیہرونی دنیا میں اپنی اہمیت کم کر بیٹھتا ہے۔حکومت سے جب ملک کی معاشی صورتحال کا پوچھا جا تا ہے تو ان کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے۔ کسی کو ہم اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
حکومتی حکام کے مطابق اٹھارھویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس بجٹ کم رہ گیا ہے۔ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومت کو ٹوٹی پھوٹی معیشت ورثے میں ملی۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اس راستے پر چلنے کیلئے اپنے جیالوں کو تیار کر رہی ہے کہ جس پر عمران خان اور ان کے ساتھی طاہر القادری چلے تھے۔مانا کہ،فی الحال حکومت کو لانگ مارچ ،جلسے جلوس اور نعروں سے فرق نہیں پڑے گا مگر آنے والے دو تین سالوں میں یہ معاملات شدید خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔
اٹھارھویں ترمیم کے معاملے کو لیکر حکومت کی فکر اپنی جگہ،مگر پچھلی حکومتوں کے کئے ھرے پر ماتم کرنے سے سیاسی معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے بعد جب پی پی پی کی حکومت آئی تھی تو اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔گو کہ پی پی پی کی حکومت نے سرکاری ملازمین کیلئے بہت سی اصلاحات اور مراعات کا اعلان کر کے عوام کا دل جیت لیا تھا۔مگر اس وقت معیشت انحطاط پذیر تھی،اور جب سرمایہ رکھنے والے طبقہ پر مقدمات چلائے جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے۔
بندہ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے؟یہ پیغام کائنات،
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایاارحیلہ گر
شاخ آہوکریں صدیوں تلک کریں
پی پی پی کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد جب نواز شریف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس حکومت نے بھی پورے پانچ سال اس بات کا رونا رویا کہ ان کو ٹوٹی پھوٹی معیشت ورثے میں ملی۔موجودہ حکومت کے حکام کہ جو ماضی میں حکومتوں کی  کرتوتوں کو سامنے لایا کرتے تھے اس وقت ان کی اپنی حکومت افراتفری کا شکار ہے ،حکومت کیلےئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا عدم استحکام دور کرنا ہے۔معاشی عدم استحکام کو دور کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔پٹرول،تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔مختلف اشیاء پر لاگو ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔ان باتوں کے ردّ عمل میں عوام پریشان ہے۔آج دنیا میں تیل اور ڈیزل کو اتنا قیمتی سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لئے عالمی طاقتیں جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔مشرق وسطیٰ میں تیل کی سیاست کو لیکر چین،امریکہ اور روس اپنا گھیرا مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔قیمتوں میں اضافے سے صارف اور عوام تیل اور ڈیزل کا استعمال کرنا کم کر دیتے ہیں۔
ماہرین اس بات کا ادراک خوب رکھتیب ہیں کہ مضبوط معیشت کا انحصار طلب اور رسد میں توازن سے،اشییاء کی پیداوار،اشیاء کی درست تقسیم اور اس کو صٰحیح استعمال کرنے سے ہے۔حکومت کو اس بات کو ،حسوس کرنا چاہیے کہ تیل اور پٹرول کی قیمتوں سے حکومتی خزانوں کو بے حد نقصان ہو گا۔ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی)میں کمی ہو گی،افراط زر کی شرح میں مزیداضافہ ہو گا۔
بر سر اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان جو نعرے لگایا کرتے تھے اس سے ملتے جلتے نعرے کبھی ذوالفقار علی بھٹو بھی لگایا کرتے تھے۔ایسا ہی ایک نعرہ جاگیرداروں اعر سرمیاداروں کے خلاف تھا۔نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والی ایک سال پورا ہونے کو ہے،مگر پرانے مسائل حل نہیں ہو رہے۔اور تو اور نئے مسائل نے سراٹھا لیا ہے۔
معاشی انحطاط کے بار میں حکومت سے جو بھی سوال پوچھا جاتا ہے ،اس کے بارے میں حکومت گول مول جواب دیتی ہے۔اب حکومت یہ جواب دینے لگی کہ اٹھارھویں ترمیم کمے بعد حکومت کے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔اس آرٹیکل کی ایک شق کے مطابق وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے۔مقصد صوبوں کی محرومی کو دور کرنا تھا ۔اس اقدام کے بعد پہلے کی نسبت وفاق کے پاس بجٹ کم رہ گیا۔ماضی میں عمران خان بہت بار چھوٹے صوبون کی محرومی کے بارے میں بات کر طکے ہیں بہت سے وعدے عوام سے کرچکے ہیں۔ایک فیڈرل اسٹیت کے جمہوری حکمران کا فرض ہے کہ وہ مرکز اور صوبوں کے درمیان معاملات کے بپہت ہی خوچ اسلوبی سے نپٹائے۔
حالیہ دنوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔مہنگائی سے پریشان عوام سڑکون پر نکل آئیگی، اگر یہی صورتحال رہی تو آج نہیں تو کل حکومت مخالف عناصے عوام کو حکومت کے خلاف اختجاج پر ابھاریں گے۔اور شائد تب ،اس حکومت کا بھی وہی انجام ہو گا کہ جو اس سے پہلے کی حکومتوں کا ہوتا آیا ہے۔
اب کی بار اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوئے،مہنگائی کم نہ ہوئی ۔جی ڈی پی میں اضافہ نہ ہوا ،افراط زر کی شرح میں کمی نہ ہوئی ،مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا ،حکومت اپنی ساری صلاحیتیں پچھلے حکمرانوں کو اداروں کے سامنے پیش کرنے میں لگی رہی تو وہ وقت بھی ور نہیں کہ جب حکومت مخالف عناصر اپنا کام کر دکھائیں گے۔
ادھر کراچی کی عوام مسائل سے پریشان ہے۔بلوچستان اپنی محرومیوں کا رونا رو رہا ہے۔حکومت کو پنجار پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنی ہے۔اگر یہ عدم استحکام رہا تو چائنہ بھی سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے کام لے گا۔حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب عوام کو بے وقوف بنانا آسان نہیں ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کی جدت سے عوام سے کوئی بھی بات چھپ نہیں سکتی۔کاش وہ وقت پاکستان پر آئے کہ جب پاکستان پر آئے کہ جب پاکستان ایک مضبوط معیشت بن کر ابھرے،تھرکول سے نکلنے والی توانائی کے سرمایے سے تھر کی آفت زدہ ٖفضاؤں میں زندگی کے رنج بکھیریں۔
کاش کہ وہ وقت کہ جب ترقی یافتہ ممالک کے سرمایا دار اس ملک میں سرمایہ لگائیں۔بطورِِِ حکمران عمران خان کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے جووجہد کرئے ۔صحیح معنوں میں پاکستان میں ان قوانین کو لاگو کریں کہ جس کا نعرہ لیکر بر سر اقتدار آئے تھے۔

.

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

.

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’ dailypak1k@gmail.com  ‘ یا ’ksfarooqi@gmail.com‘پر بھیج دیں۔ 

مزید :

بلاگ -