مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں
پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں متعارف کرائے گئے،ڈومیسائل قانون کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے،بھارت کا یہ اقدام جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے،کورونا کی عالمی وبا کی آڑ میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کر رہا ہے اور غیر کشمیریوں کو پورے بھارت سے لا لا کر مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے اور اس طرح بی جے پی کے ایجنڈے کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔پاکستان نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے اس اقدام کا نوٹس لیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ بھارت سے جواب طلب کرے۔یہ باتیں دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتائیں۔
بھارت نے گزشتہ برس 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے پورے کشمیر میں لاک ڈاؤن کر دیا تھا،ساری کشمیری قیادت کو حوالہ زنداں کر دیا تھا یا گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اب بھی لاک ڈاؤن ہے اور اس کے پردے میں بھارت کی مرکزی حکومت اپنے اس ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے، جس کا مقصد کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے،جو مسلم اکثریتی ریاست ہے اور یہاں ہندو وزیراعلیٰ بنانے کی کوششیں بُری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔کشمیری قیادت کی حراست اور نظر بندی کے دوران بھارت کی مرکزی حکومت نے محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلزڈیمو کریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کی توڑ پھوڑ بھی کی ہے اور بارہ ارکان پر مشتمل ایک نیا دھڑا تشکیل دیا گیا ہے،جس کا مقصد یہی لگتا ہے کہ اسے سیاسی سطح پر نریندر مودی کے اقدامات کی حمایت کے لئے استعمال کیا جائے،لیکن مقبوضہ کشمیر میں قدیم ترین جماعت نیشنل کانفرنس سمیت دوسری تنظیموں نے بھی روزگار کے نام سے متعارف کرائے گئے قانون کو مسترد کر دیا ہے اسے تو ہین آمیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح عوام بدترین مسائل سے دوچار ہوں گے،اس نئے قانون کے تحت ریاست میں اعلیٰ ملازمتیں باہر کے لوگوں کو ملیں گی اور مقامی کشمیریوں کے لئے صرف چوتھے درجے کی ملازمتیں ہی رہ جائیں گی۔
ایک طرف تو بھارتی وزیراعظم اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے حالات دِگرگوں ہیں، کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور پوری ریاست میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے، بھوک سے شہریوں کے مرنے کی بھی اطلاعات ہیں، ریاست میں لاک ڈاؤن کے نام پر غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے اور گھروں میں بند لوگوں کو اشیائے خوردنی نہیں مل رہیں۔ریاست میں روزگار کا جو ظالمانہ قانون نافذ کیا گیا ہے اس کے تحت بڑی تعداد میں غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آباد کرنے کا منصوبہ ہے،اِس سے پہلے سابق فوجیوں کے لئے بھی کشمیر میں خصوصی رہائشی کالونیاں بنائی گئی ہیں، جن کے دو مقاصد ہیں ایک تو آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور دوسرے کسی ممکنہ احتجاج کی صورت میں اِن سابق فوجیوں کو کشمیریوں کے خلاف استعمال کرنا، یہ اقدامات تو اسی وقت سے جاری ہیں جب نریندر مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تھے۔دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کر دی، پھر پورے ملک میں متنازع شہریت بل نافذ کر دیا،جس کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے، کئی ریاستوں میں پُرتشدد واقعات بھی ہوئے، دہلی کے علاقے شاہین باغ میں احتجاجی دھرنا تشدد کے باوجود جاری تھا اب کورونا کی آڑ میں یہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
مودی نے اپنے دورہئ امریکہ کے دوران وہاں ایک جلسہ ئ عام بھی کیا،جس سے صدر ٹرمپ نے بھی خطاب کیا،بعد میں صدر ٹرمپ بھارت کے دورے پر بھی آئے اور گجرات میں عام جلسہ کیا،جس کے بعد پورے بھارت میں فسادات شروع ہو گئے۔جلسوں کی اس سیاست کے ذریعے بھارت نے تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے اقدامات مستحکم کرنا شروع کر دیئے، جبکہ صدر ٹرمپ کے پیش ِ نظر بھارت نژاد امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا جو بڑی تعداد میں امریکہ میں آباد ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کا شوشہ بھی کئی بار چھوڑا،لیکن اس سلسلے میں بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ صدر ٹرمپ نے جب بھی ثالثی کی بات کی، مودی نے فوری طور پر مسترد کر دی اور وہ اقدامات جاری رکھے،جن کا مقصد کشمیر پر بھارت کی مرکزی سرکار کا قبضہ مستحکم کرنا تھا، روزگار کا یہ قانون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اگر اقوام متحدہ اس کا نوٹس نہیں لیتی تو یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا۔ پاکستان کو یہ معاملہ انسانی حقوق کی عالمی کونسل میں اٹھانا چاہئے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے دورہئ پاکستان کے دوران ایک سے زیادہ بار کہا تھا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اس کا حل پُرامن طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہئے۔ عالمی ادارے کے سربراہ کی یہ بات بھی سنی اَن سنی کر دی گئی اور نریندر مودی کشمیر میں مرکزی حکومت کے اقدام کو آگے بڑھاتے رہے،اب پوری دنیا کورونا کی وبا سے نپٹنے میں مصروف ہے،پورے بھارت میں بھی کرفیو کی طرح کا لاک ڈاؤن ہے، غربت کے مارے غریب مزدور سروں پر سامان اٹھائے تین تین دن پیدل چل کر اپنے آبائی علاقوں کو جا رہے ہیں، کیونکہ دہلی میں ان کے لئے روزگار ہے نہ روٹی،مودی کی حکومت نے اس طرف توجہ کرنے کی بجائے کشمیر میں ڈیمو گرافی تبدیل کرنے پر ساری توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے اور گھروں میں قید کشمیریوں کی مجبوریوں کا فائدہ اُٹھا کر اپنے منصوبے پر کام شروع کر رکھا ہے۔ مودی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ریاستی انتخابات کی بنیاد پر اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔انہوں نے یہ کوششیں دو بار کر دیکھیں، ایک بار مفتی محمد سعید مرحوم کو وزیراعلیٰ بننے سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ ریاست میں گورنر راج نافذ کر کے بھی دیکھ لیا،لیکن وہ ریاستی اسمبلی میں پی ڈی پی کی اکثریت کی وجہ سے اپنا وزیراعلیٰ نہ بنا سکے، ایک سال تک وزیراعلیٰ رہنے کے بعد مفتی محمد سعید انتقال کر گئے تو ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کے ساتھ بھی سودے بازی کی کوشش کی گئی اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے کسی ہندو کو وزیراعلیٰ بنانے کی تجویز دی۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی تو ریاست کی اسمبلی توڑ دی اور پھر 5اگست کے اقدامات کے ذریعے ریاست کی خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی، اب ہندوؤں کی بالادستی کے منصوبے پر مرحلہ وار کام شروع ہے اور ریاستی آبادی کا تناسب بدلنے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس کے لئے وقت ایسا منتخب کیا گیا ہے جب پوری دُنیا کورونا سے لڑ رہی ہے عالمی ادارے اور عالمی برادری کو مل کر یہ منصوبہ ناکام بنانے کی ضرورت ہے، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غیر موثر بنانا ہے جو اب بھی عالمی ادارے کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔