قبل ازوقت پھانسی پرلٹکا یا!
پاکستان کے بعد ایسے حکمران جنہیں سازش کے تحت قتل کر دیا گیا ان میں لیاقت علی خان سرفہرست اور دوسرے نمبر پر ذو الفقار علی بھٹو ہیں جو بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جس دن ذو الفقار علی بھٹو نے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اسی دن سے ہی ان کے خلاف عالمی اور طاغوتی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا ویسے بھی دنیا کے بعض ایسے سیاستدان جو بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے کو طاقتور ممالک نے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انہیں نہ صرف راستے سے ہٹا دیا بلکہ ایک طویل عرصہ وہ جیل میں بھی اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ان قدآور سیاستدانوں میں جنہیں اپنے راستے سے ہٹایا گیا میں لیاقت علی خان‘ ذو الفقار علی بھٹو‘ محترمہ بینظیربھٹو‘ضیا الحق جن کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا بھی شامل ہیں تاریخ میں انکا نام کسی نہ کسی حوالے سے درج ہو چکا ہے ذوالفقار علی بھٹو دنیاکے اعلی پائے کے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی تعلیم ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کی اور عملی طور پر سیاست میں اس طرح داخل ہوئے کہ ایک انقلاب برپا ہو گیا پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے اس عظیم سیاستدان نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں اس وقت شہرت حاصل کی جب انہوں نے اقوام متحدہ میں 1965کی جنگ میں سیز فائر کی قرار داد پھاڑ کر ہندوستان کے وزیر خارجہ کے منہ پر دے ماری معاہدہ تاشقند پر ان کے اختلافات منظر عام پر آئے اور انہوں نے بطور وزیر خارجہ استعفیٰ دیدیا پاکستان کی غیور قوم میں انکا یہ عمل انتہائی مقبول ہوا اور پھرانہوں نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک انہیں اپنے لیے خطرہ قرار دینے لگے سب سے پہلے انہوں نے امریکہ کو سفید ہاتھی سے تشبہیہ دی وزارت عظمی کے دوران انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے ترقی یافتہ ممالک کو للکارا اور یہ عمل انہیں کسی صورت بھی قبول نہ تھا ذو الفقار علی بھٹو میں ہر انسان کی طرح خامیاں بھی موجود ہونگی مگر انکی خوبیوں کو آج بھی دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے جنرل ضیاء الحق نے انکا تختہ الٹا اور انہیں گرفتار کر کے ایک قتل کے مقدمہ میں مشاورت کرنے پر زندان میں بند کر دیا ذو الفقار علی بھٹو پر قتل میں مشورہ کرنے کے جرم میں مقدمہ چلا اور انہیں سزائے موت کا قیدی ڈکلیئر کر دیا گیا ان کی موت کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں کہ انہیں پھانسی دی گئی ہے یا انہیں تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے مگر ان کی ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی سے لیکر پھانسی گھاٹ تک کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں اچانک ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہنگامی حالت کا نفاذ کیوں کیا گیا ہے جیل کا عملہ ایک دوسرے سے سوال کرتا مگر کسی کے پاس اسکا جواب نہیں تھا25مئی 1978صبح گیارہ بجے کے قریب ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کا مرکزی دروازہ کھول کر پہلی مرتبہ قیدیوں کی ایک وین کو ڈیوڈی میں لا کر کھڑاکر دیا گیا جیل کے عملے کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ کوئی خاص شخصیت ہے ورنہ قیدیوں کی وین کو جیل کے باہر ہی کھڑا کر کے ملزمان کو ڈیوڈی میں لایا جاتا ہے مگر قیدیوں کی اس وین میں موجود ملزم کے بارے میں ہر شخص ایک دوسرے سے سوال کر رہا تھا کہ آنے والے مہمان کون ہے جو اس جیل میں زندہ تو لایا گیا ہے مگر خدا جانے کہ وہ زندہ جیل سے باہر نکلے گا بھی کہ نہیں وین کے پچھلے دروازے کو کھولاگیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو جنہوں نے نیلے رنگ کا دھاری دار سوٹ جو دو تین جگہ سے نہ صرف پھٹ گیا بلکہ گندا بھی ہو چکا تھا پہنے ہوئے باہر نکلے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے سپرٹینڈنٹ جیل جو اس نئے مہمان کے استقبال کے لیے ڈیوڈی میں ہی کھڑے تھے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں اس ملک کا وزیر اعظم ہوں طاقت کے بل بوتے پر مجھے وزیر اعظم ہاؤس سے جیل پہنچا دیا گیا ہے مجھے عام قیدیوں کی وین میں تختے پر بٹھا کر لایا گیا ہے میں نے پولیس کو نئی گاڑیاں اور مراعات دیں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرایا مذکورہ وین کے ڈرائیور نے مجھے وین میں فٹ بال بنا رکھا تھا کبھی وہ زور سے بریک لگاتا اور کبھی اس قدر تیزی سے چلانے کی کوشش کرتا کہ میں کبھی پچھلے دروازے اور کبھی اسکے اگلے حصے سے ٹکرا جاتا اسی وجہ سے نہ صرف انکا لباس گندا ہو گیا ہے بلکہ انکا کوٹ اور پینٹ بھی پھٹ گئی ہے سپرٹینڈنٹ جیل یار محمد نے انہیں کہا کہ وہ انکی کوئی مدد نہیں کر سکتے ذوالفقار علی بھٹوکی آمد سے قبل ہی ایک زنان خانے کو خالی کرا لیا گیا تھا عام تاثر یہی تھا کہ کسی خاتون کو لایا جا رہا ہے مگر جب ذو الفقار علی بھٹو کو زنان خانے کے سیل میں منتقل کیا گیا تو یہ خبر ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے تمام قیدیوں میں پھیل گئی کہ وقت کے وزیر اعظم اور اسلامی دنیا کے بہت بڑے لیڈر ذو الفقار علی بھٹو ایک قیدی کی صورت میں ان کے ساتھ جیل میں بند ہیں اس زنان خانے کے ایک حصے کو کچن اور غسل خانے میں تبدیل کیا گیا اس سیل کے آگے ایک گیلری تھی مذکورہ زنان خانہ جس میں ذوالفقار علی بھٹو قید رہے ابھی تک قائم ہے جبکہ باقی جیل کو مسمار کر کے اسے پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاہم جس جگہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اس جگہ یادگار تعمیر ہے معزول وزیر اعظم کو اس سیل میں منتقل کیا گیا تو وہ سیل میں کافی دیر تک جیل کے عملے سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کرتے رہے عبد الرحمان نامی ایک قیدی بطور مشقتی انہیں دیا گیا جس نے 323دن ان کی بے مثال خدمت کی ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ابتدائی ایام بڑی اضطرابی میں گزارے مگر بعد ازاں انہوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ذوالفقار علی بھٹو جیل میں گزارے ہوئے 323دنوں میں صرف دو مرتبہ سخت طیش میں آئے پہلے مرتبہ جب انہیں عام وین میں جیل لایا گیا دوسری مرتبہ جب پنکی (بینظیر بھٹو) طے شدہ وقت پر ملاقات کے لیے نہ پہنچیں بینظیر بھٹو ہفتے میں ایک بار اپنے پاپا ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے کے لیے جیل پہنچتیں اور انکی علیحدگی میں ایک گھنٹہ ملاقات ہوتی اس دوران کسی بھی شخص حتی کہ مشقتی کو بھی ان کے قریب جانے کی اجازت نہ تھی بینظیر بھٹو ملاقات کے دوران اپنے ہاتھوں سے پاپا کے لیے کافی بناتیں اور گھر سے لایا ہوا کھانا گرم کر کے انہیں کھلاتیں تھیں ذو الفقار علی بھٹو اس وقت انتہائی خوش و خرم ہوتے جب انکا پسندیدہ سالن جس میں مٹر قیمہ اور پھلیاں شامل تھیں پک کر آتا تھا اس دن وہ ایک سے زائد روٹی کھاتے تھے ویسے معمول کے مطابق وہ صبح ہلکا سا ناشتہ کرتے دوپہر کو ایک روٹی کھاتے اور شام کو دودھ کا ایک گلاس پیا کرتے تھے ایک گھنٹے کے لیے جیل حکام انہیں چہل قدمی کی اجازت دیتے مگر اکثر اوقات وہ قانون کی کتابوں میں کھوئے رہتے جس دن پنکی کی ملاقات کا دن ہوتا تھا اس دن وہ علی الصبح اٹھ جاتے نہا دھو کر نیلا سوٹ پہن کو برآمدے میں پنکی کا انتظار کرتے ایک مرتبہ کراچی سے اسلام آباد آنے والی فلائٹ لیٹ ہو گئی اور پنکی مقررہ وقت پر ملاقات کے لیے نہ پہنچی تو انہوں نے جیل حکام اور بعض فوجی حکام کو باآواز بلند انگلش میں برا بھلا کہنا شروع کر دیا انکا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انگلش میں یہ کہتے رہے کہ جس شخص نے بھی میرے اور پنکی کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی میں اسے تہس نہس کر دوں گا اور غصے میں زور زور سے پاؤں کو پٹختے رہےجیل حکام نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل کے انچارج مجید احمد قریشی جو اس وقت اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل کے عہدے پر فائز تھے کو بلایا اور کہا کہ صاحب کو سمجھاؤ مجید احمد قریشی ذوالفقار علی بھٹو جو اردو کی بجائے انگلش میں بات کرنا زیادہ پسند کرتے تھے سے انہوں نے انگلش میں کہا کہ چیئرمین صاحب کسی نے آپ کی ملاقات پر پابندی عائد نہیں کی محترمہ بینظیر بھٹو جلد آ جائیں گی مگر ان کی دیری کا ہمیں بھی علم نہیں اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو جیل پہنچ گئیں تو اس کی اطلاع ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی جن کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا مجید احمد قریشی فوری طور پر گیٹ کے قریب پہنچے اور بینظیر بھٹو کو بتایا کہ آپ کے لیٹ ہونے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو سخت غصے میں ہیں تو محترمہ بینظیر بھٹو مسکرا دیں اور کہا وہ حالات کو کنٹرول کر لیں گی بینظیر بھٹو اپنے پاپا ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پہنچیں تو انہوں نے فرط جذبات سے انہیں گلے لگا لیا اور کہا کہ پنکی ان کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اسکا حساب تو حکمرانوں کو دینا پڑے گا مگر اگر کسی نے میرے اور تمہارے درمیان دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسکا خمیازہ وہ ضرور بھگتے گا محترمہ بینظیر بھٹو جیل کا مرکزی دروازہ عبور کرتے ہی زور سے ایک فقرہ کہا کرتی تھیں ہیلو پاپا میں آ گئی ہوں بھٹو اگر اس وقت آرام بھی کر رہے ہوتے تو محترمہ کی آواز سن کر اٹھ جاتے انکا چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا بینظیر بھٹو نے اپنے لیٹ ہونے کی وجہ سے پاپا کو آگاہ کیا اور بتایا کہ فلائٹ لیٹ ہو گئی تھی آپ جیل حکام پر کیوں غصہ نکال رہے ہیں محترمہ اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر لاتیں اور ملاقات کے دوران وہ مختلف امور کے علاوہ پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کرتیں ذوالفقار علی بھٹو انہیں بعض معاملات پر ہدایات دیتے اور پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں عوام کا رد عمل بھی معلوم کرتے ذوالفقار علی بھٹو کو فروٹ میں سیب اور انگور بہت پسند تھے بڑے پیمانے پر ان کے لیے کھانا لایا جاتا باقی کھانا ان کے سیل پر تعینات جیل ملازمین اور مشقتی وغیرہ کو بھی دیا جاتا بلکہ بعض اوقات کھانا اس قدر زیادہ ہوتا کہ جیل کا پورا عملہ محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھوں سے پکا ہوا کھانا کھاتا محترمہ بینظیر بھٹو جب ملاقات کے لیے آتیں تو انتہائی ہشاش بشاش ہوتیں مگر جب وہ رخصت ہوتیں تو انکی آنکھیں نمناک ہوتیں اور پاؤں بوجھل ہوتے وہ انتہائی افسردہ ہوتیں واپس جاتے ہوئے وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتیں اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ گیٹ کے پاس پہنچ کر پھر دوبارہ پاپا کے سیل کے پاس پہنچ جاتیں اور کہتیں کہ پاپا میرے اور آپ کی ملاقات کے لیے مقررہ وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ میں چند لمحے ہی پہلے آ پ سے ملاقات کے لیے آ ئی ہوں گھنٹے سیکنڈوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات اگر ایک گھنٹے سے اوپر ہو جاتی تو جیل حکام کو یہ سختی سے ہدایت تھی کہ انہیں زبردستی جیل سے نکال دیا جائے محترمہ انتہائی عقل مند اور باشعور تھیں اور اسکی نوبت کبھی نہ آئی کہ انہیں زبردستی جیل سے باہر نکال دیا جائے ذو الفقار علی بھٹو اکثر اوقات اپنی بیٹی کو کہا کرتے تم جب بھی مجھے ملنے کے لیے آؤ جیل ملازمین کا بھی خیال کیا کرو انکی خدمت کیا کرو یہ انکی بہت زیادہ خدمت کر رہے ہیں ذو الفقار علی بھٹو نے جیل کے 323دن کبھی بھی فارغ بیٹھ کر نہیں گزارے وہ فارغ اوقات میں کتابیں پڑھتے اور کچھ نوٹس لکھتے رہتے تھے محترمہ انکی ذاتی لائبریری سے انکی پسندیدہ کتابیں ساتھ لیکر آ تی تھی جب کہ ذو الفقار علی بھٹو فرانس کے مشہور رائٹر میکاولی کی کتب پڑھتے ہوئے نظر آتے میکاولی پولیٹکل سائنس کے معروف تھنکر اور رائٹر تھے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انہیں جیل میں بی کلاس دی گئی تھی اس سہولت کے تحت انہیں ایک پلنگ‘ میز‘ کرسی اور پنکھا بھی دیاگیا سردیوں میں سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں ہیٹر بھی فراہم کیا گیا وہ اکثر اوقات اپنی نگرانی پر معمور اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل مجید احمد قریشی کو اپنے پاس بلا کر کہا کرتے کہ انہوں نے اس ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کیا ہے پاکستان کو ایٹمی پاور بنانے کے علاوہ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا اسلامی ممالک کے پاس دولت اور تیل کا ہتھیار موجود ہے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی وجہ سے انہیں سزا دی گئی ہے عالمی طاقتوں کو میرا عمل پسند نہیں آیا امریکہ‘ روس تیسری دنیا کو برداشت نہیں کرتے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو کے وکلا پر ان سے ملاقات پر کوئی پابندی نہیں تھی کو جب جی چاہتا تھا ملاقات کے لیے آ جاتے ذو الفقار علی بھٹو جو لا گریجویٹ تھے اکثر اوقات مختلف نوٹس بنا کر اپنے وکلا یححی بختار‘ حفیظ پیرزادہ اور دوست محمد اعوان کو دیتے بھٹو انتہائی ذہین انسان تھے قانون کی کتابیں انہیں ازبر یاد تھیں ذو الفقار علی بھٹو پر کوٹھری سے نکلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ سہ پہر کو ٹہلنے کے لیے نکلتے شام ہوتے ہی سیل میں چلے جاتے اکثر اوقات وہ اپنے وکلا‘ محترمہ بینظیر بھٹو اور جیل حکام کو کہتے کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں وہ بہت جلد رہا ہو جائیں گے اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے والے اسی سیل میں پہنچ جائیں گے ذو الفقار علی بھٹو نے 323دن میں اپنی صرف ایک سالگرہ منائی جس روز ذو الفقار علی بھٹو کی سالگرہ تھی اس دن پوری جیل کو دولہن کی طرح سجا دیا گیا تمام سجاوٹی سامان محترمہ بینظیر بھٹو کئی یوم پہلے اپنے ہمراہ لیکر آ ئیں جنہیں ان کے مشقتی عبد الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے سجایا اس موقع پر بینظیر بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو اور ان کے وکلا کے علاوہ تمام جیل کے عملے کو بھی مدعو کیا گیا جب ذو الفقار علی بھٹو نے سالگرہ کا کیک کاٹا تو اس موقع پر موجود تمام افراد نے کورس کے انداز میں ”ہیپی برتھ ڈے ٹو یو“ گایا کورس کے انداز میں گائے جانے والے ان فقروں کو سن کر جیل میں قید دیگر قیدیوں نے بھی اپنی اپنی بارکوں میں باآواز بلند ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گانا شروع کر دیا جو کافی دیر تک گایا جاتا رہا ذو الفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم‘ امیر بیگم‘ عاشق بھٹو اور ممتاز بھٹو نے 323دنوں میں چند ملاقاتیں کیں ان کی پہلی بیگم امیر بیگم نے انہیں ملاقات میں پڑھنے کے ایک خوبصورت تسبیح دی جنہیں انہوں نے مالا سمجھ کر گلے میں ڈال لیا اور یہ تسبیح ان کے گلے میں تقریبا 300دن تک رہی سزائے موت سے قبل اس تسبیح کو ان کے گلے سے اتا ر لیا گیا مجید احمد قریشی جو ریٹائرمنٹ کے بعد ان دنوں لاہور میں وکالت کر رہے ہیں نے بتایا کہ وہ اس امر کا حلف دینے کے لیے تیار ہیں کہ کسی فوجی یا جرنیل نے ذو الفقار علی بھٹو سے ملاقات نہیں کی صرف کرنل رفیع جو سیکیورٹی انچارج تھے ایک آدھ دفعہ ان سے ملاقات کے آئے جبکہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ جنرل چشتی نے ان پر تشدد کیا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو شراب کے عادی تھے اور وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزارتے تھے بلکہ جیل میں شراب منگوانے پر سخت پابندی ہے اور نہ ہی ایسا ممکن تھا کہ کوئی چھپا کر انہیں جیل میں شراب پہنچا دیتا سیکیورٹی ایجنسیوں کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں ارسال کی جاتی تھیں جن میں ان کے روز مرہ کے معمولات بھی شامل تھے کہ بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا ہاں البتہ ذوالفقار علی بھٹو سیون اپ یا پیپسی پیا کرتے تھے اور کافی کے بے حد رسیا تھے تسبیح کو مالا اورقران پاک کو مقدس کتاب سمجھ کر انہوں نے ہمیشہ پاس رکھا مگر جیل میں انہیں قران پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا وہ اکثر اوقات کہتے کہ میرا اللہ پر کامل یقین ہے نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور انہوں نے قادیانیوں پر پابندی عائد کی کہ وہ خود کو مسلمان نہیں لکھ سکتے وہ دکھاوے کا مولوی نہیں بننا چاہتے خدا وندکریم دلوں کے بھید خوب جانتا ہے جیل سے رہا ہونے کے بارے میں ہر وقت پر امید رہنے والے ذو الفقار علی بھٹو اس وقت انتہائی غمزدہ ہو گئے جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان سے مسترد ہو گئی ہے بلکہ وہ یہ خبر سنتے ہی سکتے میں آ گئے اپیل خارج ہونے کے دس یوم بعد انہیں پھانسی دیدی گئی سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد انہوں نے شیو کرنا بھی چھوڑ دی وگرنہ وہ 313دن صبح سویرے اٹھتے سب سے پہلے شیو کرتے نہاتے‘ پینٹ کوٹ پہن کر بیٹھ جاتے یا مطالعہ شروع کر دیتے شیو چھوڑنے کی وجہ سے انکی براؤن داڑھی نکل آ ئی جس میں وہ انتہائی خوبصورت نظر آنے لگے بھٹو کے وکلانے ملاقات کے دوران انہیں کہا کہ چیئرمین صاحب صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کر دیں مگر یہ فقرہ سنتے ہی وہ انتہائی غصے میں آ گئے اور کہا کہ جس شخص نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے وہ اس سے رحم کی بھیک نہیں مانگیں گے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اسلامی ممالک انہیں جلد آزاد کرا لیں گے انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل خارج ہونے اور صدر پاکستان سے رحم کی اپیل نہ کرنے کے باوجود انہیں قوی امید تھی کہ وہ آزاد ہو جائیں گے اور ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ماضی میں کوئی ایسی مثال موجود ہے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل خارج ہونے کے فوری بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کو واپڈا ریسٹ ہاؤس ہالہ میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ پھانسی سے قبل آخری ملاقات کے لیے دونوں ماں بیٹی کو اکٹھے ملاقات کے لیے لایا گیا تو بھٹو یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ آج ماں بیٹی کو اکٹھے کیوں ملاقات کے لیے لایا گیا ہے بلکہ ان پر یہ خوف بھی طاری ہو گیا کہ ان کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے اب وقت کے حکمران کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں اپیل خارج ہونے کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو سے بی کلاس کی سہولت واپس لے لی گئی ان کے سیل سے کرسی‘ میز‘ اور پلنگ وغیرہ اٹھا لیے گئے وہ دس یوم تک فرش پر سوتے رہے نگرانی پر معمور مجید احمد قریشی سے انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا انکی پنکی اور نصرت بھٹو سے یہ ان کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے تو مجید احمد قریشی نے انہیں بتایا کہ جی ہا ں چیئرمین صاحب آ پ کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں یہ آ پ کی آخری ملاقات ہے آپ کے وکلا نے آپ کی سختی سے کی جانے والی ہدایت کے باوجود صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کر دی گئی مگر انہوں نے بھی اس رحم کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے صبح آپ کو پھانسی دے دی جائے گی یہ فقرے ادا کرنے کی دیر تھی کہ پنکی اور بیگم نصرت بھٹو نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا انکے رونے کی آواز سے پوری جیل گونج اٹھی اس وقت ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں تقریبا 80موت کے قیدیوں سمیت 12سو قیدی اور حوالاتی موجود تھے ماں بیٹی کے رونے کے اس منظر کو دیکھ کر موقع پر موجود عبد الرحمان مشقتی‘ مجید احمد قریشی اور دیگر عملہ بھی اس رونے میں شامل ہو گیا ان کے بھی آنسو نکل آئے حتی کہ پوری جیل کے ملازمین کے علاوہ جیل کے حوالاتی‘ قیدی بھی اونچی آواز میں رونا شروع ہو گئے جیل میں موجود قیدیوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ جیل میں لایا جانے والا مہمان جو اس ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے یہ منظر اس قدر دردناک اور کربناک تھا کہ جیل کی درو دیوار بھی روتے ہوئے محسوس ہونے لگی کافی دیر تک رونے دھونے کا یہ سلسلہ جاری رہا ذو الفقار علی بھٹو بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور جیل کی دیواروں سے اپنا سر پٹخنے لگے محترمہ بینظیر بھٹو مجید احمد قریشی کی منت سماجت کرنے لگیں ان کے سامنے انہوں نے ہاتھ باندھ دیے کہ خدا کے واسطے آج ان کی حوالات کے لوہے کا جنگلا کھول دو انہیں پایا کو سینے سے لگا لینے دو مگر یہ جیل قوانین کے خلاف تھا محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کا ہاتھ جو انہو ں نے جنگلے سے باہر پیار دینے کے لیے نکالا تھا کو پکڑ کر چومتی رہیں جب کہ بیگم نصرت بھٹو بار بار بے ہوش ہو جاتیں جنہیں پانی پلا کر ہوش میں لایا جاتا ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس آخری ملاقات کے دوران ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ماں بیٹی کی آہ زاری سے زمین اور آسمان پھٹ جائے گا جیل حکام کو سختی سے اس امر کی ہدایت تھی کہ وہ احکامات کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں وگرنہ انہیں بھی اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ملاقات کا وقت ختم ہوتے ہی مجید احمد قریشی نے انہیں کہا کہ محترمہ اب آ پ کی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہےاور انہیں ایک منٹ بھی زائد نہیں دیا جا سکتا لہذا زبردستی کیے بغیر وہ خود ہی جیل سے باہر نکل جائیں باپ‘ بیٹی اور اہلیہ کی جدائی کا وقت دیدنی تھا محترمہ بینظیر بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو‘ کو زبردستی پکڑ کر جیل حکام نے مرکزی دروازے کی طرف لے جانا شروع کیا تو وہ دونوں ماں بیٹی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھیں ان کے قدم انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے انہیں گھسیٹ کر مرکزی دروازے تک پہنچایا گیا تو اچانک محترمہ بینظیر بھٹو جیل حکام سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ان کے حصار کو توڑتی اور بھاگتی ہوئی ذو الفقار علی بھٹو کے سیل تک پھر پہنچ گئیں اور دیوانہ وار لوہے کے جنگلے کو چومنے لگیں جیل حکام ان کے پیچھے بھاگے اور محترمہ بینظیر کو دوبارہ پکڑ لیا تو انہوں نے مضبوطی سے لوہے کے جنگلے کو پکڑ لیا ذو الفقار علی بھٹو اس موقع پر انتہائی غصے میں یہ کہتے رہے کہ خبردار کسی نے پنکی کو ہاتھ لگایا یا ان پر تشدد کیا اگر یہ انکی آخری ملاقات ہے تو یہ ادھوری ملاقات کیوں ہے جب تک ان کی بیٹی اور اہلیہ خود جیل سے باہر نہیں جاتیں انہیں ہرگز جیل سے باہر نہ نکالا جائے مگر ان کے احکامات اور مطالبات بالکل بے معنی تھے ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور ماں بیٹی کو زبردستی جیل سے باہر نکال دیا گیا جیل کے باہر کھڑے ان کے محافظوں نے انہیں گاڑی میں بٹھایا جو گھر واپس جاتے ہوئے ماں بیٹی گاڑی میں ہی بے ہوش ہو گئیں اور انہیں دوبارہ واپڈا ریسٹ ہاؤس سہالہ میں نظر بند کر دیا گیا جیل میں موجود قیدی ساری رات سو نہ سکے اور مختلف بیرکوں سے کبھی رونے کبھی درود شریف اور کبھی نعتوں کی آواز آتی رہی پھانسی کی رات زبردست بارش ہوئی اور جیل میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہو گیا پھانسی سے قبل ذو الفقار علی بھٹو کے گلے کی پیمائش کی گئی ڈاکٹر نے انکا طبی معائنہ اور رپورٹس مرتب کیں پھانسی کی رات ذو الفقار علی بھٹو نے دس روز سے بڑھی ہوئی داڑھی کی شیو کی نہا دھو کر کریم کلر کی شلوار پہنی اور سونے کی بجائے کوٹھڑی میں بیٹھ کر نوٹس لکھتے رہے رات گیارہ بجے مجید احمد قریشی نے موت کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولاتو ذو الفقار علی بھٹو انتہائی غمزدہ اور غصے میں دکھائی دے رہے تھے اچانک کھل کھلا کر ہنس دیے اور کہا میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے پھانسی نہیں دے سکتے تم میرے لیے کوئی خوشخبری لائے ہوں نا مگر مجید احمد قریشی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ نہیں چیئرمین صاحب آپ کے لیے کوئی خوشخبری نہیں لگتا ہے اس عارضی دنیا میں آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے آپ اٹھیں پھانسی کے لیے تیار ہو جائیں آپ نے 4اپریل 1979کا سورج نہیں دیکھنا بھٹو کو وارننگ اور تیاری کا حکم دینے کے بعد وہ انہیں پھانسی دینے کے انتظامات مکمل کرنے کے لیے چلے گئے اسلامی دنیا کے لیڈر منتخب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے تارا مسیح کو بلایا گیا تھا جو اس امر سے بالکل بے خبر تھا کہ آج اس نے ملک کے معزول وزیر اعظم کو پھانسی دینی ہے اپنے کمرے میں نیند پوری کر رہا تھا اسے یہ جاننے کی بھی کوئی غرض نہ تھی کہ اس کے ہاتھوں سے کس بندے کی جان جائے گی اس رات جیل میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات کر لیے گئے تھے جیل کی درو دیواروں پر طیارہ شکن توپیں نصب کر دی گئیں رات ایک بجے کے قریب جب جیل کا عملہ انہیں پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے ان کے سیل کے قریب پہنچا تو ذو الفقار علی بھٹو نے بھاری تعداد میں لکھے جانے والے نوٹس کو جلا دیا جلانے کے لیے ماچس کی ڈبی ان کے مشقتی عبد الرحمان نے انہیں دی ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے قبل اپنی نہایت قیمتی رولیکس گھڑی جو انہیں شاہ فیصل نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد پر تحفہ میں دی تھی اور یہ گھڑی شاہ فیصل نے اپنی کلائی سے اتار کر انہیں گفٹ کی تھی کو اپنے مشقتی عبد الرحمان کو دے دی مجید احمد قریشی جیل عملہ کے ہمراہ جب انہیں ان کے سیل سے نکالنے کے لیے پہنچے تو ذو الفقار علی بھٹو فرش پر لیٹ گئے اور کہا کہ میں ہرگز نہیں جاؤں گا انگریزی میں ایک فقرہ بار بار دوہرانے لگے کہ انہیں مقابلہ کر کے لے جانا ہو گاجب یہ صورتحال جیل حکام نے دیکھی تو پریشان ہو گئے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں زبردستی لے جایا جائے گا اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک اسٹریچر منگوا لیا مجید احمد قریشی نے نہ چاہتے ہوئے بھی جیل ملازمین کے ساتھ مل کر ان کے ہاتھ پشت پر مضبوطی کے ساتھ باندھ دیے اس دوران ذو الفقار علی بھٹو شدید مزاحمت کرتے رہے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر جب پھانسی گھاٹ پر لے جایا جانے لگا تو انہوں نے مزاحمت اچانک بند کر دی اور زارو قطار باآواز بلند رونا شروع کر دیا اور انگریزی میں کہا کہ ان کے بعد نصرت اور پنکی اکیلی رہ جائیں گی پھانسی گھاٹ پر جب انہیں اسٹریچر سے انہیں اتارا گیا تو خلاف توقع وہ کھڑے ہو گئے اور خود چل کر موت کے کنویں کے اوپر مخصوص دائرے پر کھڑے ہو گئے مجید احمد قریشی نے ذو الفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین صاحب پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈال لیں بزدلی نہ دکھائیں اور موت کے سینے سے لگا لیں خلاف معمول انہیں کریم کلر کی شلوار قمیض بھی نہ اتارنے دی گئی ایسا لگتا تھا جیسے اس وقت کے حکمرانوں کو انہیں پھانسی دینے کی جلدی ہے اور جلد از جلد وہ دنیا کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے بے چین ہیں ذو الفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا گیا گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے سے قبل ان کے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ڈال دیا گیا تارا مسیح کو پھانسی گھاٹ پر پہنچنے کے بعد یہ علم ہوا تھا کہ آج اس کے ہاتھوں ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانی ہے پھانسی کے تختے پر کھڑا ہونے کے بعد ان کے دونوں پاؤں کو رسی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا اس موقع پر ذو الفقارعلی بھٹو نے جو آخری فقرے کہے تھے وہ یہ تھے کہ ان کے چہرے سے کالا نقاب ہٹا دیا جائے مگر ایسا ممکن نہ تھا پھانسی گھاٹ پر ذو الفقار علی بھٹو کی نظر قریب کی پڑے تابوت اور کفن پر پڑی تو انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ حقیقت ہے اس وقت کے جیل کے قوانین کے برعکس ذو الفقار علی بھٹو کو رات دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا پھانسی کے عمل کے موقع پر ڈاکٹر محمد اصغر‘ آئی جی جیل خانہ جات چوہدری نذیر احمد اختر‘ سپرٹینڈنٹ جیل چوہدری یار محمد دویانہ‘ خواجہ غلام رسول ڈپٹی سپرٹینڈنٹ‘ مجید احمد قریشی کاظم بلوچ‘ چوہدری عارف‘ ہیڈ وارڈن‘ اور آرمی کی طرف سے کرنل رفیع بھی موجود تھے ذو الفقار علی بھٹو کا جسم تین منٹ تک پھانسی گھاٹ میں پھڑکتا رہا اور جلد ہی ان کی روح پرواز کر گئی مگر جیل قوانین کے مطابق نصف گھنٹے تک انکی نعش رسے سے جھولتی رہی نصف گھنٹے بعد ڈاکٹر محمد اصغر کنویں میں اترے اور ان کی نبض چیک کرنے کے بعد موت کی تصدیق کا فارم پر کرنے کے بعد چلے گئے جیل حکام نے انہیں جیل میں ہی غسل دینے کا اہتمام کر رکھا تھا ان کی نعش کو حافظ محمد حیات نے غسل دیا اور کفن پہنا کر تابوت میں رکھ دیا فوجی حکام تابوت لیکر چکلالہ ائیر بیس روانہ ہو گئے نیلا دھاری دار سوٹ پہن کر 323دن قبل جیل کے مرکزی دروازے سے داخل ہو کر آنے والا مہمان سفید کفن پہنے جیل سے رخصت ہو چکا تھا ان کی 323دن مسلسل نگرانی کرنیوالے اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل مجید احمد قریشی بھٹو کا سامان جس میں انکی شادی کی انگوٹھی‘ گلے میں ڈالی ہوئی تسبیح‘ قران پاک‘ جائے نماز‘ کراکری‘ شلوار قمیض‘ اور پشاوری چپل لیکر واپڈا ریسٹ ہاؤس سہالہ پہنچے تو پہلے سے نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کے ہاتھ میں بھٹو کا سامان دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا بینظیر بھٹو نے مجید قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاپا کو رخصت کر کے آ گئے ہو کیا میرے پاپا نے حوصلہ کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما رو رو کر دونوں ماں بیٹی کی ہچکیاں بندھ گئیں بینظیر بھٹو اپنے پاپا کی نشانیاں دیکھ کر انہیں دیوانہ وار چومتی اور روتی رہیں دونوں ماں بیٹی دو گھنٹے تک ان سے بھٹو کے آخری لمحات کے بارے میں پوچھتی رہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو نے پھانسی کی رات مجید احمد قریشی کو اپنا ایک خوبصورت رومال جو انہیں ان کی پہلی بیگم امیر بیگم نے دیا تھا اور جس پر خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کرتے ہوئے لفظ بی کنندہ کیا ہوا تھا دیا جو ابھی بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔
٭٭٭