تحریک عدم اعتمادکیس، سپریم کورٹ نے سپیکر کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کردی
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ نے سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کردی، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اصرار کیا کہ مقدمہ کو آج ہی مکمل کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسرے فریق کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہو جائے، آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔عدالت نے سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل عدالت کا کہناتھاکہ پہلے درخواست گزاروں کو سننا چاہتے ہیں، دیگر کسی کیس کو آج نہیں سن رہے ، صرف اسمبلی کی کارروائی کو ہی دیکھیں گے، فل کورٹ کی وجہ سے دیگر تمام مقدمات متاثر ہوئے، اگر بینچ پر کسی کو اعتراض ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، عدالت کوتعین کرنےدیں کہ کونساسوال کتنااہم ہے، آپ بتاناپسندکریں گےکہ کونسےآئینی سوالات پرفل کورٹ کی ضرورت ہے؟ اگرآپ کوکسی پرعدم اعتمادہےتوبتادیں،ہم اٹھ جاتےہیں، جوکچھ قومی اسمبلی میں ہوااس کی آئینی حیثیت کاجائزہ لیناہے، وہ تحریک عدم اعتماد پرڈپٹی سپیکرکی رولنگ کیخلاف ازخودنوٹس کی سماعت کررہے تھے۔
دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ عدالت میں 2 باتیں کرناچاہتاہوں،عدالت کے 21 مارچ کےحکم کی جانب توجہ مبذول کراناچاہتاہوں، 21 مارچ کوسپریم کورٹ بارکی درخواست پر 2 رکنی بنچ نےحکمنامہ جاری کیاتھا۔ انہوں نے کہا کہ کل پارٹی کی ہدایات نہیں لی تھیںِ،عمران خان نے بتایا کہ جلدی الیکشن کے لیے تیار ہیں، سارا مسئلہ ہی جلدی الیکشن پر تھا، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا، جو کچھ بھی ہوا سب ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں ، اس پر چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ یہ سیاسی بیان ہے، آج ہم کوئی مناسب حکم جاری کریں گے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہمارے سامنے دو درخواستیں اور از خود نوٹس ہے ، اگر کوئی سٹیٹمنٹ دینا ہے تو دے دے ۔
دوران سماعت پیپلزپارٹی کےوکیل فاروق نائیک کی فل کورٹ بنچ بنانےکی استدعا کردی اور موقف اپنایا کہ عدالت پربوجھ نہیں بنناچاہیئے۔
گذشتہ روز عدالت نے کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے صدر، وزیراعظم، تمام سیاسی جماعتوں، سپیکر، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، دفاع، پنجاب کے آئینی بحران پر ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کئے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رمضان ہے سب نے روزہ رکھا ہے، تمام ادارے آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کریں، تمام سیاسی قوتیں اور ریاستی حکام صورتحال کا فائدہ نہ اٹھائیں، معاملہ پر دائر درخواستوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں امن و امان یقینی بنائیں۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان؟۔فاروق ایچ نائیک نے مقدمے کے حقائق بتائے کہ سپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے، ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے، عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی، اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سوال کیا، فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا 3 اپریل کو اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے مقرر کیا گیا ہے ،؟ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کونسا دن دیا، تحریک عدم اعتماد پر سیدھا ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے۔فاروق نائیک نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 27 مارچ کو عمران خان نے جلسہ میں غیر ملکی خط لہرایا اور الزام لگایا کہ اپوزیشن کے غیر کی سازش کا حصہ ہے، 31 مارچ کو نیشنل سیکورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا، 31 مارچ کو ہی عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا، 31 مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونا تھی، اگر تین اپریل کو بحث ہوتی تو چار اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی۔فاروق نائیک نے کہا کہ فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہو سکتی تھی، اسپیکر اسد قیصر کو معلوم تھا کہ غیر قانونی قدم ہے اس لئے وہ موجود نہیں تھے، ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فواد چوہدری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس رول کے تحت رولنگ جاری کی ہے؟، ڈپٹی اسپیکر رولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے، کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے؟، میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، رول 28 کے تحت تو اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے، اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے، کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟۔
فاروق نائیک نے جواب دیا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان اسمبلی کو ہی غدار قرار دیدیا، ایوان میں ووٹنگ کیلئے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے؟ تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سے ہی ہونا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں، اسپیکر کی طرف سے ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی؟۔فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، قائم مقام اسپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے، جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ آپ کا نقطہ ہے عدم اعتماد پر ووٹنگ فکس تھی، آپ کا کہنا ہے ووٹنگ پر فکس ہونے کے بعد عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، ہمیں یہ پوائنٹ نوٹ کرنے دیں، اسپیکر کس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟، اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا۔
وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ تحریک 20 فیصد سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے کی منظوری دینے پر ہی مسترد ہو سکتی ہے، اسپیکر کسی صورت تحریک عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا، آرٹیکل 5 کے سہارے بھی تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے، تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو۔
فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی اور کالعدم بھی، بدنیتی کی بنیاد پر آرٹیکل 254 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا، رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا، تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے، اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا، اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلاء نے دینا ہے۔