آئی ایس آئی چیف کے امریکی حکام سے مذاکرات

آئی ایس آئی چیف کے امریکی حکام سے مذاکرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے اپنے پہلے دورے کے دوران امریکی حکام سے اہم مذاکرات کئے ہیں، گزشتہ روز انہوں نے دفتر خارجہ میں صدر اوباما کے افغانستان کے متعلق خصوصی رابطہ کار لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس ای لیوٹ سے ملاقات کی، اس ملاقات میں امریکہ کے خصوصی نمائندے مارک گراس مین بھی موجود تھے، ایک سرکاری ذریعے کے میڈیا میں یہ ریمارکس رپورٹ ہوئے ہیں ”دونوں جانب سے مختلف مسائل پر اپنے اپنے موقف کا اعادہ کیا گیا،جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ اہم باہمی تعلقات کو از سر نو مستحکم کیا جائے“ آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر میں ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈپیٹریاس سے ملاقات جمعرات کی شب ہوئی، اس سے پہلے وہ بدھ کی رات پاکستانی سفیر شیری رحمن کی رہائش گاہ پر سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل موریل سے ملاقات کر چکے تھے:”دونوں ملک انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں“۔
اگرچہ امریکہ پاکستان کو اپنا”نان نیٹو اتحادی“ کہتا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں باہمی تعلقات کی تاریخ اونچ نیچ سے ا ٹی رہی ہے۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے دورئہ امریکہ سے شروع ہونے والے یہ تعلقات کبھی بہت اچھے ہوتے ہیں، کبھی نارمل ہوتے ہیں اور کبھی معمول کی سطح سے بھی نیچے چلے جاتے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ جب بھی یہ تعلقات مائل بہ خرابی ہوتے ہیں تو دونوں ملک تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور ان میں کامیابی بھی ہوتی ہے۔گزشتہ برس پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے کے بعد یہ تعلقات ایک بار پھر خراب ہوگئے، پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کردیا، شمسی ایئربیس خالی کرالیا گیا۔اس دوران سفارتی کوششوں کے نتیجے نیٹو سپلائی بحال ہوگئی ہے اور اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب کی بار دونوں ملکوں نے اس سپلائی کو ایک تحریری ضابطے کے تحت لانا پسند کیا،جس پر دونوں ملکوں میں باقاعدہ دستخط ہوئے ہیں۔اب پاکستان کے راستے جو بھی سپلائی ہوگی وہ انہی تحریری شرائط کے تحت ہوگی، اس سے پہلے نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک ہی ٹیلی فون کال پر امریکہ کے تمام مطالبات مان لئے تھے، جس پر امریکیوں کو بھی حیرت ہوئی تھی اور اپنے اس جہانِ حیرت کا اظہار امریکی جرنیل زینی نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا، اس وقت سے نیٹو سپلائی کی بندش تک نیٹو ملکوں کا سازوسامان بلا روک ٹوک افغانستان جاتا رہا،اہل وطن کو معلوم نہیں تھا کہ حکومتِ پاکستان نے اس سپلائی کے لئے کیا شرائط طے کررکھی ہیں۔اس ضمن میں کوئی تحریری معاہدہ بھی موجود نہیں تھا اور جو کچھ بھی ہورہاتھاایک فردِواحد کے حکم پر ہورہا تھا،جن کا خیال تھا کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی جاتی تو وہ پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیتا۔امریکہ تو خیر ایسا نہ کر سکا، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ضرور پتھر کے زمانے میں پہنچ گئی اور اسے کم و بیش ایک سوارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔اس کے بدلے میں پاکستان کو جو امریکی امداد ملی، وہ اس کا عشرعشیر بھی نہیں تھی۔
قوموں کے تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تعلقات کا فائدہ ایک فریق کو ہی پہنچے اور دوسرا سراسر خسارے کا سودا کرتا رہے، یہ درست ہے امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے،چالیس سے زیادہ نیٹو ممالک بھی اس کے اتحادی ہیں، لیکن ملکوں کے تعلقات میں ملکی مفاد کو بہرحال سامنے رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں،اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان چند ماہ کے مشکل دور کے بعد تعلقات کا جو نیا عہد شروع ہورہا ہے، اس میں دونوں ملکوں میں اعتماد بڑھے اور اس میں جو دراڑیں پیدا ہوئی تھیں وہ پاٹ دی جائیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔جانی و مالی قربانیوں کے باوجود ایسے مواقع بہرحال پیدا ہوتے رہے جب دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان نظر آیا۔امریکہ زمینی حقائق سے صرف نظر کرکے ”ڈومور“ کامطالبہ کرتا رہا۔اب بھی شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا جو مطالبہ کیا جارہا ہے، اس میں بھی معروضی حالات سامنے نہیں رکھے جارہے۔
اگرچہ جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل پیٹریاس کی ملاقات کی تفصیلات سرکاری طور پر سامنے نہیں آئیں اور محض یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ ”دونوں ملک انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں“ لیکن پاکستان کا یہ موقف بہت واضح ہے کہ ڈرون حملوں سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔یہ درست ہے کہ ان حملوں میں بعض دہشت گرد بھی نشانہ بنے، لیکن اس سے زیادہ بے گناہ افراد ڈرون حملوں میں ہلاک ہوگئے،جو بے گناہ لوگ مارے گئے ان کے قبائل میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور نتیجے کے طور پر دہشت گردی کا دائرہ بہت پھیل گیا۔گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ڈرون حملے بند کئے جائیں، خود امریکہ میں بھی ایسے حملوں کے خلاف آوازیں اٹھائی جارہی ہیں، ان حالات میں پاکستان کا یہ موقف بہت وزنی ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں دہشت گردی زیادہ پھیل رہی ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ جنرل ظہیر الاسلام کے دورے کے بعد، یہ حملے ختم ہوں گے اور امریکہ اس سلسلے میں پاکستان کی پوزیشن کو بہتر طور پر سمجھ سکے گا۔دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے بھی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔افغان سرحد کی طرف سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جو کارروائیاں ہوتی ہیں، ان پر بھی قابو پانا بہت ضروری ہے اور آئندہ سلالہ چیک پوسٹ جیسے واقعات روکنے کی بھی ضرورت ہے۔دونوں ملکوں میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ ہوتا رہے تو ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملتی رہے گی۔
امریکہ میں اگرچہ ایسے صاحب الرائے لوگوں کی کمی نہیں جو پاکستان کی قربانیوں کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ان حالات کی وجہ سے سخت دباﺅ میں رہا ہے،پاکستان سے رخصت ہونے والے سفیر کیمرون منٹر ایسے ہی امریکیوں میں سے ہیں جو پاکستان کی پوزیشن کو بہتر طور پر سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی حکومت پر پوزیشن واضح کردی تھی، جہاں ان کی بات اس طرح نہیں سنی گئی جس طرح سنی جانی چاہیے تھی امید ہے نئے سفیر اولسن بھی اپنے پیشرو کی طرح زمینی حقائق کا ادراک کریں گے، امید کرنی چاہیے کہ جنرل ظہیر الاسلام کے دورے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا بہتر دور شروع ہوگا اور حالیہ مہینوں کی تلخ یادیں قصہ ءماضی بن جائیں گی،سفیر اولسن بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

مزید :

اداریہ -