اُردو زبان اور ہم (2)
پاکستان کی قومی زبان ’’ اُردو ‘‘کو سرکاری زبان بنانے کے لئے اقدامات تو کئے جا رہے ہیں لیکن اصل مسئلے کا حل تو تب ہی ہوگا جب ’’ اُردو زبان‘‘ کو ذریعہ تعلیم و تدریس بنایا جائے گا اور ہر قسم کے مقابلوں کے امتحانات بھی، اُردو زبان میں ہی ہوں گے۔ اس سارے منصوبہ کو درہم برہم کرنے کے لئے ایک با اثر طبقہ جسے ہم بیورو کریسی کہتے ہیں موجود ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس ہی غیر ملکی زبان (انگریزی) اور غیر ملکوں سے، حاصل کرنے پر ایک بہت بڑی رقم خرچ کی ہے۔۔۔ بھلا وہ آسانی سے کیسے مانیں گے؟ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بیس کروڑ کی آبادی میں، یہ طبقہ صرف، کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہی بنتا ہے۔۔۔ جمہوریت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ننانوے فیصد آبادی کے جذبات کا احترام کیا جائے۔ اور یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں رائج کیا جائے۔اس یکسانیت سے طبقاتی اونچ نیچ میں فرق پڑے گا اور ایک ہی طرح کے نصاب اور ایک ہی طرح کے ذریعہ تعلیم و تعلم سے، نہ صرف قومی یکجہتی اور قومی آہنگی پیدا ہو گی۔۔۔ بلکہ قومی تقویت کا باعث بھی بنے گی۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے لوگوں کے اندر ایک مثبت پیغام بھی جائے گا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتیں، جس طرح اپنی زبان میں بروئے کار آتی ہیں کسی اور زبان میں کیسے آ سکتی ہیں؟ اس کی وجہ بڑی ہی سادہ ہے کہ اپنی زبان، انسان کی سرشت میں ہوتی ہے، اس کے ضمیر میں ہوتی ہے۔ ہزاروں برس کے ثقافتی ارتقاء کے نتیجے میں رکھے جانے والے، انسان کے ڈی این اے میں اس کی اپنی زبان کی کوڈنگ ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، پاکستان میں نام نہاد اشرافیہ، غیر ملکی زبان انگریزی کے ذریعے، ایک بھی عالمی شہرت یافتہ ادیب اور شاعر پیدا نہیں کر سکا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے۔ جس سے فطری صلاحیتیں اجاگر نہیں، ہوا کرتیں ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے باسی، ’’ اُردو ‘‘ کی جڑواں بہن، ’’ ہندی‘‘ کے ساتھ ساتھ بیسیوں مقامی زبانوں کے ساتھ کتنا لگاؤ رکھتے ہیں، وہاں اب سرکاری ملازمتوں کے مقابلے کے امتحان میں انگریزی زبان میں مہارت کی شرط کو ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی زبان کے طور پر کوئی اور مقامی زبان، ’’ اُردو ‘‘ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ انگریزی کو ایک بین الاقوامی زبان کے طور پر ضرور سیکھنا چاہئے۔۔۔ نہ صرف انگریزی بلکہ اس کے ساتھ چینی، جرمن، جاپانی اور دیگر زبانیں بھی سیکھی جانی چاہئیں۔۔۔ لیکن ہمارے دفتروں، عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں بنیادی زبان تو ہماری اپنی ہی ہونی چاہئے۔۔۔ اور وہ ہے ’’اُردو ۔‘‘ یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ آئین پاکستان کی مذکورہ دفعہ 251 کے تحت ہی ’’وفاقی اُردو یونیورسٹی‘‘ کراچی میں قائم ہوئی۔ اس کا شعبہ تالیف و تصنیف و ترجمہ گزشتہ چند سالوں سے سائنسی علوم میں ماسٹر ڈگری کی سطح تک کتابیں شائع کر چکا ہے۔ جو یونیورسٹی میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ کم و بیش ماسٹر ڈگری نصاب پر مشتمل طبعیات، کیمیا، حیوانات،نباتات، ارضیات، علم الادویہ اور ریاضیات وغیرہ کے مضامین کی اکثر کتب، اُردو میں لکھی جا چکی ہیں اس یونیورسٹی نے 22 جلدوں پر مشتمل، اُردو لغت تیار کی ہے۔ یہ ’’اُردو لغت بورڈ کراچی‘‘ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس میں تمام علوم و فنون کی اصطلاحات اور ان کا استعمال درج کیا گیا ہے۔
اِس کے علاوہ بھی، بہت سا کام ’’اُردو زبان‘‘ پر ہو چکا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے 22 جلدوں پر مشتمل اُردو انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے اس کے علاوہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تاریخ ادبیات اُردو چھ جلدوں میں تصنیف کی ہے جسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ منہاج الدین نے بڑی محنت سے قاموس الاصطلاحات کے نام سے ڈکشنری مرتب اور شائع کرائی۔ جس میں انگریزی زبان کی تمام سائنسی، دفتری اور تکنیکی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ شامل ہے۔ ’’ اُردو سائنس بورڈ‘‘ بھی اسی کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے یہ وہ زبان ہے جس نے ’’ پاکستان کے قیام‘‘ کا مقدمہ لڑا، آج خود اس کا اپنا مقدمہ، سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے۔
ایک فکر انگیز بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ نے شہنشاہِ جاپان سے پوچھا، مانگو کیا مانگتے ہو؟ تو دانا اور محب وطن شہنشاہ نے جواب دیا: ’’ ’’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم۔۔۔‘‘ جاپان کی طرح، جرمنی، فرانس، چین سمیت کئی ایسے ممالک شامل ہیں جو اپنی زبان کو فوقیت دے کر ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ برصغیر میں 200 سال حکومت کرنے والے انگریز آج بھی ریشہ دوانی کی وجہ سے ہم پر حاکم ہیں۔ جب تک ہم ذہنی طور پر ان کی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے۔ ہمارے علم و تحقیق کے سوتے خشک ہی رہیں گے۔۔۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے اپنی زبان و تہذیب کے مطابق تعلیمی نظام وضع کرنا ہوگا جس کے نتیجہ میں چین، جاپان، فرانس، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ چند ایک دلچسپ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بار بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم نے فرمایا تھا ’’ زبان کسی قوم کی جان ہوتی ہے اور اس کا گلا گھونٹنا، گویا قوم کا گلا گھونٹا ہوتا ہے۔‘‘
اس لئے عرض ہے کہ ہمارے حکمران طبقات، پارلیمینٹ، سیاسی جماعتیں اور بالخصوص تعلیم سے وابستہ ماہرین کو سنجیدگی سے اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ اب تک جو انگریزی زبان کو اپنی زبانوں پر فوقیت دے کر ۔۔۔ جو ظلم اپنی قوم اور اس کی ترقی کے عمل میں کرتے رہے ہیں۔۔۔ اس مجرمانہ غفلت کے ازالہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اُردو یا مقامی زبانوں کی ترویج کے لئے، ہمیں اپنے اندر موجود نفسیاتی کمتری کے احساس سے باہر نکلنا ہوگا۔ قومی تشخص کا ایک دلچسپ واقعہ عرض کئے دیتا ہوں چین کے آنجہانی چو این لائی پاکستان آئے تو ایک پریس کانفرنس سے چینی زبان میں خطاب کیا۔ چینی مترجم، انگریزی زبان میں ان کا مدعا بیان کر رہا تھا۔ ایک جملے کا اس نے غلط ترجمہ کیا تو چو۔این۔ لائی نے اسے ٹوک دیا۔ اخبار نویس حیران رہ گئے۔ کسی نے پوچھ ہی لیا کہ آپ خود انگریزی جانتے ہیں تو انگریزی میں بات کریں۔ انہوں نے چینی زبان میں ہی جواب دیا کہ جب میری قومی زبان چینی ہے تو انگریزی کیوں بولوں! ۔۔۔ یہ ہوتی ہے قومی غیرت۔۔۔ جس کے اظہار کا ذریعہ قومی زبان ہی ہوا کرتی ہے۔
ایک اور حقیقت آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جنرل ضیاء الحق واحد شخص تھے جنہوں نے جنرل اسمبلی سے اُردو میں خطاب کیا۔ اس سے ان کی شان میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوا۔ ہمارے رہنماؤں یا قوم کو اُردو بولنے میں کیا عار ہے؟ ذرا سوچئے! اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مجموعی طور پر بحیثیت قوم، ہوش کے ناخن لیں اور فوری طور پر ، قومی زبان ’’ اُردو ‘‘ کی ہر شعبے میں عملداری قائم کرنے کی سعی کریں۔ اور قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’ انگریزی کی حاکمیت‘‘ کو ختم کریں اور یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب ہم اپنے نظام تعلیم و تدریس کو اپنی قومی زبان اُردو میں کریں گے اور اس کو سرکاری، نیم سرکاری دفتری زبان کا درجہ دیں گے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!(ختم شد)