سرکاری ہسپتالوں میں مطلوبہ فنڈز بھی مہیا کریں
گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اچانک سول ہسپتال سکھر کا دورہ کیا تو صفائی کی انتہائی ناقص صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ہسپتال کے عملے کو تمام معاملات بہتر بنانے کے لئے آخری وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں سیاست نہیں، مریضوں کا علاج ہونا چاہئے۔ سید خورشید شاہ پرانے سیاستدان ہیں اور انہیں یقیناًیہ علم ہو گا کہ دیگر محکموں کی طرح محکمہ صحت، خصوصاً ہسپتالوں میں بھی سفارشی بھرتی ہوتی ہے۔ چنانچہ بہت سے ملازمین (ڈاکٹروں نرسوں ڈسپنسرز سے لیکر صفائی کے عملے تک) اپنی ڈیوٹی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ عملہ صفائی کی مسلسل ہڈ حرامی اور غیر حاضری کی وجہ سے ہسپتالوں کے وارڈز اور بیت الخلاء گندگی اور کوڑے کرکٹ سے بھر ے رہتے ہیں۔ مزید ستم یہ کہ وہاں موٹی تازہ بلیاں بھی برسوں پرورش پاتی ہیں جبکہ خوفناک جسامت کے چوہے بھی مریضوں اور ان کے تیمار داروں کو کاٹ کر زخمی کر دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے سول ہسپتال سکھر کا دورہ کیا اور وہاں صفائی کی ابتر حالت پر ناراضی کا اظہار ہی نہیں بلکہ کپڑا اٹھا کر خود صفائی بھی کرنا شروع کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہ صاحب کو مذکورہ ہسپتال میں صفائی کی صورتحال بارے پہلے سے معلومات نہیں تھیں؟ وہ برسوں سے سیاست اور اقتدار میں ہیں، انہیں یقیناًعلاقے کے لوگوں نے بارہا ہسپتال کی ناگفتہ بہ صورتحال سے آگاہ کیا ہو گا۔ شاہ صاحب اگر نوٹس لیکر صورتحال بہتر بنانے کے لئے صحیح معنوں میں خدمت خلق کا کام کرتے تو صفائی کی حالت ہی بہتر ہو سکتی تھی۔ وہ ہر دور میں با اثر سیاستدان اور حکومتی عہدیدارکے طور پر کام کرتے رہے ہیں، وہ توجہ دیتے تو حکومت سے مذکورہ ہسپتال کے لئے مطلوبہ فنڈز منظور کروا کر مسائل کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔
ہسپتالوں کی افسوسناک صورتحال ہر شہر اور ہر صوبے میں یکساں ہے۔سول ہسپتال سکھر کی افسوسناک صورت حال کراچی،حید ر آباد،لاہور،ملتان،راولپنڈی،پشاور،کوئٹہ سمیت ہر ہسپتال میں یکساں ہے۔ کہیں کہیں کوئی ہسپتال کسی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی ذاتی توجہ اور کوشش سے بہتر حالات کی عکاسی کر سکتا ہے لیکن 90فیصد سے زیادہ ہسپتال مریضوں اور لواحقین کے لئے ضروری سہولتوں سے محروم ہیں ہمارے ہاں یہ روایت عام ہو چکی ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران ہسپتالوں کے دورے کرتے ہیں تو صفائی وغیرہ کروا دی جاتی ہے۔ چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں میں تو سارا وقت خراب صورتحال غریب اور ضرورت مند مریضوں کا منہ چڑاتی ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ ہسپتالوں میں سہولتیں مہیا کرنے کے لئے حکومتی سطح پر مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کئے جاتے۔ جو رقوم منظور ہوتی ہیں، وہ مختلف سطح پر بدعنوانی اور خورد برد کی نذر ہوتی رہتی ہیں۔ اگر ہسپتال کے وارڈز میں ائیر کنڈیشنرز کام نہیں کرتے تو اس میں حکومتی عہدیداروں اور اعلیٰ سرکاری حکام کی غفلت اور بے حسی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہوں یا دیگر حکومتی عہدیدار، انہیں چاہئے کہ وہ ہسپتالوں کی حالت زار پر اظہار افسوس ہی نہ کریں بلکہ اپنے اپنے علاقے میں صورتحال بہتر بنانے کے لئے مستقل بنیادوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور ترجیحی بنیادوں پر ہسپتالوں میں سہولتیں مہیا کرنے کا کام یقینی بنائیں۔ یہی اصل طریق کار ہے ورنہ اب لوگ کافی باشعور اور سمجھدار ہو چکے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ سیاسی نمبر بنائے گئے ہیں یا حقیقی معنوں میں عوام کو سہولتیں مہیا کرنے کا کام ہوا ہے۔