فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے اجتماعی سوچ اختیار کرنا ضروری ہے :پرویز رشید
کراچی (این این آئی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت ،لسانیت اور گروہی سطح پر مفادات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اجتماعی سوچ کو اختیار کریں، معراج محمد ایک عہد ساز شخصیت تھے اگر ان کی باتوں پر عمل کرلیا جاتا تو ملک میں ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی،ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق او ر ان کے مکالمہ کے حق کو تسلیم کیا جائے ،مکالمہ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ ان خیالات کا اظہا ر انھوں نے بدھ کو کراچی پریس کلب میں احباب معراج محمد خان کی جانب سے عظیم ترقی پسند سیاسی و نظریاتی رہنما معراج محمد خان کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس بعنوان یادیں اور جدوجہد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرمختلف سیاسی جماعتوں ،مزدور رہنماؤں،تجزیہ نگار،دانشوروں اور ترقی پسند نظریات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی ۔تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک ، جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن، صحافی عمر بلوچ،تجزیہ کار مقتدا منصور،مزدور رہنما منظور رضی،قوم پرست رہنماعبدالخالق جونیجو،عوامی مرکز پارٹی کے یوسف مستی خان ،تجزیہ کار مجاہد بریلوی،سی پی ایل سی کے سابق چیف و صنعت کار حاجی ناظم، انیس باقر،پیپلز پارٹی کے رہنما راشد حسین ربانی ، آرٹس کونسل کے سابق صدر احمد شاہ، سماجی رہنماشیما کرمانی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔پرویز رشید نے کہا کہ معراج محمد خان صرف شخصیت نہیں بلکہ عہد کے ترجمان تھے ،ایک ایسا عہد جو پاکستان میں جبر و پابندیوں اور سیاہ دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس عہد میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی ان آوازوں میں سب سے طاقت ور آواز اور جدو جہد معراج محمد خان کی تھی ۔معراج محمد خان ایک ملنسار شخصیت تھے،وہ جبر کے خلاف للکار کی حیثیت رکھتے تھے،1970میں مارشل کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے چھ سال سزا ہوئی ،بھٹو کے دور میں وہ وزیر رہے ،ان کے پروٹوکول میں وہ شخص شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی تھی اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یاتو میرے آگے یا پیچھے ہوگی۔ اس پولیس افسر کو کچھ کہنے کے بجائے انھوں نے اس کی خیریت دریافت کی یہ ان کی اعلیٰ شخصیت ہونے کی دلیل ہے ۔معراج محمد خان ہمارا اثاثہ تھے ،وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جدو جہد اور اصول ہمیشہ ہمارے ساتھ رہینگے۔پرویز رشید نے کہا کہ کچھ لوگوں نے خطے کے امن کو ہائی جیک کیا ہو اہے، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی مسلح طاقت استعمال کرنا پڑ رہی ہے جن سے پاکستان کی درسگاہیں محفوظ ہیں اور نہ کوئی اور چیز محفوظ ہے ، اگر 1970میں معراج محمد خان کو پابند سلاسل کرنے کے بجائے ان کی بات مان لی جاتی تو آج پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں سے جان چھڑوانے کے لیے مسلح طاقت استعمال نہ کرنا پڑتی۔ان کا تو صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے ،انھوں نے کہا کہ علم کی روشنی کو پھیلانے میں معراج محمد خان نے اہم کردار ادا کیا، وہ مکالمہ کے آدمی تھے اور یکطرفہ مکالمہ نہیں کرتے تھے،وہ دوسرو ں کو نقطہ نظر سنتے اوراپنا نقطہ نظر بیان کرتے ،ہر مسئلہ کا حل مکالمہ سے چاہتے تھے ،اگر ان کی بات کو درست طریقے سے سنا جاتا تو آج کچھ لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے ضرب عضب نہ لانی پڑتی۔انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان کی دوسری تھی کہ ملک میں جمہوریت اور عوام کی طاقت جو تسلیم کیا جائے ، انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان کی زندگی کی جدو جہد کا 75فیصد حصہ آمریت کے خلاف تھا،وہ منتخب حکومتوں کے خلاف بھی آواز بلند کرتے تھے اور اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے، معراج محمد خان کو بھٹو کے دور میں کبھی مجمع میسر نہیں آیا لیکن آج تاریخ نے ثابت کردیا کہ پورا پاکستان معراج محمد خان کی زندگی کو یاد کر رہا ہے ،انھوں نے کہا کہ آج ملک میں جمہوریت کے حق کو تسلیم کیا جائے ،درسگاہوں میں علم کی روشنی کو عام کیا جائے ،انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان انسانو ں کی تقسیم کے قائل نہیں تھے خواہ تقسیم مذہب ،لسانیت ، قومیت یا کسی اور بنیاد پر ہو۔وہ اس بات کے قائل تھے جو شخص حق حلا ل کماتا ہے اس کی محنت پر کسی دوسرے کا حق نہیں ۔ان کی کچھ باتیں تو مان لی گئیں لیکن کچھ ابھی منوانا باقی ہیں ، جو باتیں رہ گئی ہیں ہمیں اس کے لیے مل کر جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔