پیپلزپارٹی کا المیہ، چار بار برسر اقتدار رہنے والی سندھ تک محدود
تجزیہ:چودھری خادم حسین
پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی بڑی جماعت ہے جو چار بار برسر اقتدار رہی، پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی شہرت کے حامل رہنما تھے، بدقسمتی سے وہ عالمی تھانیدار کی سازش کا شکار ہو کر ملک عدم کو سدھارے، اُن کے بعد اُن کی اہلیہ اور صاحبزادیوں سمیت صاحبزادوں کو بھی مصائب کا سامنا رہا۔بہرحال ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے حالات کو سنبھالا اور بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اس دورانئے میں بے نظیر بھٹو اور ان کے دونوں بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو بھی غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ بعدازاں محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری کی قیادت میں یہ جماعت چوتھی بار برسر اقتدار آئی اور اس بار جماعت نے پانچ سالہ دورِ اقتدار کی مدت پوری کی۔ تاہم یہ مدت پارٹی کو راس نہ آئی۔2013ء کے عام انتخابات میں سندھ کے سوا سارے مُلک میں پارٹی کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، اب اس کا تمام تر دارو مدار سندھ پر ہے جہاں یہ جماعت2008ء سے اقتدار میں ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا المیہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد اس جماعت کو عوامی سطح پر مقبول قائد نہیں ملا۔ آصف علی زرداری نے قیادت کی، لیکن مفاہمت کی پالیسی نے جماعت کی شہرت کو نقصان پہنچایا، اس کے علاوہ دورِ اقتدار میں پارٹی کی حکومت، وزراء، رہنماؤں اور کارکنوں نے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کارکردگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا، جس کی توقع کی جا رہی تھی، اسی کے نتیجے میں پارٹی کو2013ء میں نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ حال ہی میں آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بُری ہوئی اور پارٹی بمشکل تین نشستیں جیت سکی، باقی دو ’’مفاہمت‘‘ کی دین ہیں اور اقتدار میں رہ کر بھی یہ جماعت آزاد کشمیر کے رائے دہندگان کا پھر سے اعتماد نہ حاصل کر سکی۔
شاید یہی حالات اور المیہ ہے جس کی بنا پر مستقبل کی امید بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو وقت سے پہلے میدان میں اتارنا پڑا، حالانکہ منصوبے کے مطابق ان کو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل سیاست میں کودنا تھا، اس وقت تک ان کو اُردو زبان پر عبور اور تقریر پر قدرت حاصل ہو جانا تھی، لیکن حالات نے ان کو وقت سے کہیں پہلے میدان میں آنے پر مجبور کر دیا، اس کے باوجود انہوں نے آ کر جماعت کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا اور تنظیم کی طرف توجہ دی، لیکن یہاں ان کے لئے بے شمار مسائل تھے جو حضرات جماعت پر قابض تھے وہ دوسرے لوگوں کو کہنی مار کر پیچھے دھکیل رہے تھے اور یوں بھی مفاہمت اور مقابلے میں جنگ شروع ہوگئی تھی، بلاول نوجوان ہیں وہ مقابلے پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن ان کے والد آصف علی زرداری اپنے تجربے کی روشنی میں مفاہمت کی پالیسی کو یکسر ترک نہیں کرنا چاہتے، چنانچہ یہ ایک اور المیہ ہوا، جو نیم دروں اور نیم بروں والا ہے۔ اسی کا تینجہ ہے کہ آزادئ کشمیر کے انتخابات میں بلاول کو دیکھنے اور سننے کے لئے آزاد کشمیر کے ووٹر، خواتین و حضرات تو بہت بھاری تعداد میں آئے، لیکن ان کی حاضری کے مطابق بیلٹ بکسوں سے ووٹ برآمد نہ ہو سکے، شاید اسی وجہ سے بلاول بھی یقین کر بیٹھے کہ ان کی جماعت کے ساتھ دھاندلی ہو گئی ہے، حالانکہ ان کو اپنی جماعت کا محاسبہ کرنے کے لئے آزاد کشمیر حکومت کے دور کا بھی جائزہ لینا چاہئے تھا۔ اگر وہ اب بھی ایسا کریں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ چودھری عبدالمجید کی قیادت میں آزاد کشمیر حکومت عوام کو نہ تو کچھ دے سکی اور نہ ہی ان کا اعتماد حاصل کر پائی، نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
دوسری طرف پارٹی کا یہ بھی المیہ ہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جماعت کو تنظیم نو کر کے نیا خون شامل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تمام تنظیمیں توڑ کر تنظیمی کمیٹیاں بنا دی ہیں کہ تنظیم نو کی جا سکے۔ یہ کمیٹیاں کام تو کر رہی ہیں، لیکن ان کے انداز فکر میں سب کو ساتھ لے کر چلنا شاید شامل نہیں یا پھر ان کا طریق کار درست نہیں ہے۔ یہ تو بلاول بھٹو زرداری کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ جب بھی کسی شہر کے دورے پر گئے وہاں ان کے روبرو ایسے کارکن لائے گئے جو منتظمین کے پسندیدہ تھے، حالانکہ بلاول بھٹو زرداری خود کہتے رہے کہ وہ روٹھے لوگوں کو منائیں گے، لیکن نہ تو ان کارکنوں کو اپنے نوجوان لیڈر سے مکالمہ نہیں کرنے دیا گیا جو پیپلزپارٹی کے کلچر کے مطابق بے باک ہیں۔ بلاول جب بھی آئے چُن چُن کر نام دیئے اور لوگ بلائے گئے تاکہ سخت مکالمہ نہ ہو، حالانکہ ضرورت یہی ہے اور یہ پیپلزپارٹی کا کلچر ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ بلاول کو یہ سوچنا اور ان حضرات سے مشورہ لینا چاہئے جو ان کی والدہ کے بااعتماد لوگ ہیں اور جن کا تعارف بھی محترمہ خود کرا کے گئیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ تنظیمی کمیٹیاں مقررہ میعاد پوری کر چکیں، ابھی تک تنظیم نو کی تجاویز تیار نہیں ہوئیں، اب لاہور اور سنٹرل پنجاب کے بارے میں یہ تجویز سامنے آئی کہ کارکنوں سے پنجاب اور لاہور کی صدارت کے لئے تین تین نام مانگے گئے کہ وہ تجویز کریں تاکہ قیادت کو سفارشات بھیجی جا سکیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ابھی تک پنجاب کے لئے صرف قمر زمان کائرہ کا نام سامنے آیا، جبکہ لاہور کے لئے نوید چودھری، الحاج عزیز الرحمن چن اور چودھری اسلم گل کے نام لئے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سب آزمودہ اور پرانے لوگ ہیں، قمر زمان تو اب بھی ترجمان ہیں، نوید چودھری صوبائی سیکرٹری اطلاعات رہ چکے جبکہ الحاج عزیز الرحمن چن اور چودھری اسلم پہلے بھی لاہور کے صدر رہے یوں تنظیم نو میں بھی جوش اور جذبہ نظر نہیں آیا۔
بلاول بھٹو اور پارٹی قیادت کو بہت کچھ سوچنا ہو گا، صرف باتوں سے2018ء کا الیکشن نہیں جیتا جا سکے گا عمل اور پروگرام کے ساتھ رویے بھی اہمیت ر کھتے ہیں، بہتر ہو گا کہ بلاول ہر بڑے شہر میں کارکنوں کا جلسہ عام بلائیں اور طویل اجلاس کر کے مشاورت کریں اِسی صورت میں وہ حقائق جان پائیں گے اور نئی قیادت سامنے لا سکیں گے، ورنہ؟؟؟؟؟