ملتان انٹرنیشنل ایئر پورٹ بننے کے باوجود آم ایکسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں، شوکت مغل

ملتان انٹرنیشنل ایئر پورٹ بننے کے باوجود آم ایکسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں، ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملتان (سٹی رپورٹر)ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ بننے کے باوجود آم ایکسپورٹ کرنے کی سہولتیں میسر نہیں ،اقدمات نہ ہوئے تو سرائیکی وسیب سے آم کی پیداوار ختم ہو جائے گی ۔ ان خیالات کا اظہار سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے منعقدہ کئے گئے مینگو سیمینار میں مقررین نے کیا ۔ صدارت پروفیسر شوکت مغل نے کی اور مہمان خصوصی سید مہدی الحسن شاہ تھے، نظامت کے فرائض ظہور دھریجہ نے سر انجام دیئے ۔ تقریب سے مسیح اللہ خان جامپوری ، سید مطلوب بخاری، عابدہ بخاری ، ملک اعجاز ارائیں ، پرویز قادر خان (بقیہ نمبر46صفحہ12پر )
، اعجاز سومرو، جاوید عنبر اور دوسروں نے خطاب کیا ۔ تقریب میں سرائیکی شعراء دیوانہ بلوچ، ظفر مسکین، عارف گلشن ، کاشف بھٹہ ، واقف ملتانی نے آم کی شان میں گیت پیش کئے ۔ریڈیو ٹیلیویژن کی گلوکارہ نسیم سیمی نے ’’ ساونی‘‘ کے گیت پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملتان اور رحیم یارخان آم کے دو بڑے مراکز ہیں ، ملتان میں بیماری سے باغ اجڑ گئے اور رحیم یارخان میں شوگر مافیا آم اور کپاس کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ، آم چونکہ بنیادی طور پر سرائیکی خطے کی پیداوار ہے ، اس لئے ایکسپورٹ کے بہتر انتظامات نہیں کئے جاتے ۔ انہوں نے کہا کہ آم کی پیداوار سرائیکی وسیب کی ہے اور جوس بنانے کے کارخانے لاہور ، کراچی میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی وسیب میں 10 کلو کی آم کی پیٹی ڈھائی سے تین سو کی فروخت ہوتی ہے جبکہ یورپ ، امریکا اور دوسرے ممالک میں آم کے ایک دانے کی قیمت پانچ سو روپے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملتان انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر براہ راست ایکسپورٹ کی سہولت حاصل نہیں ۔ اس بارے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو سرائیکی وسیب سے آم کی پیداوار ختم ہو جائے گی۔ آم کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے پروفیسر شوکت مغل ، سید مہدی الحسن شاہ ، ظہور دھریجہ نے کہا کہ تاریخی کتب میں آم کو بہشتی میوہ قرار دیا گیا ہے اور سرائیکی وسیب میں آم کی کم ازکم 200 اقسام موجود ہیں ۔ پاکستان میں آم کی مجموعی پیدوار کا 70 فیصد سرائیکی وسیب مہیا کرتا ہے اور عالمی برادری ملتان کو ’’ مینگو سٹی ‘‘ کا نام بھی دیتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرائیکی وسیب میں زرعی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں ۔ نقلی ڈگری والے پنجاب کے زراعت افسروں سے جان چھڑائی جائے اور سرائیکی وسیب کو زرعی پیداوار کی رائلٹی دی جائے ۔ جوس بنانے کے کارخانے اور پلانٹ سرائیکی وسیب میں قائم کئے جائیں ۔