مستقبل کے حکمران اور اپوزیشن کاکردار؟

مستقبل کے حکمران اور اپوزیشن کاکردار؟
مستقبل کے حکمران اور اپوزیشن کاکردار؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسئلہ تو وفاق کے علاوہ صوبوں کا بھی ہے۔ لیکن سب کچھ وفاقی دارالحکومت میں ہو رہا ہے۔ متوقع حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب اسلام آباد میں ہیں اور گنتی پوری کرنے کے لئے بھی بنی گالا کی پہاڑی والے گھر بلکہ بنگلے پر ہی گلے میں جھنڈے والے پٹکے پہنائے جا رہے ہیں۔ بھاگ دوڑ کرنے اور جہاز اڑا کر منتخب اراکین کو لانے والے جہانگیر ترین مشاورت کے دوران مستقبل کے وزیراعظم عمران خان کے دائیں طرف ہوتے ہیں اور خود کو کپتان کا نائب کپتان کہلانے کے شوق والے ہمارے شاہ محمود قریشی بائیں اور پیچ و تاب کھاتے ہیں، کسی کو پرواہ نہیں کام جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نمبر گیم پوری ہی نہیں بلکہ لوگ زیادہ ہو گئے ہیں۔ برادرم فواد چودھری سرگرم ہیں تو نعیم الحق نے بھی مائیک سنبھال لئے ہیں، گزشتہ روز یہاں ایک نظارہ بھی دیکھنے کو مل گیا۔ لائیو پروگرام کا یہی تو فائدہ اور نقصان بھی ہے کہ عام آزاد اراکین اور بعض منی جماعتوں کی طرح یہاں آمّنا صدقنا نہ ہوا، بلوچستان تحریک انصاف نے بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل سے رابطہ کیا اور وہ مشروط طور پر تعاون کے لئے آمادہ ہو گئے اوراپنی شرائط اور مطالبے بھی پیش کر دیئے، جب ان سے کہا گیا کہ وہ پہاڑی پر چلیں اور کپتان سے ملیں تو انہوں نے لگی لپٹی کے بغیر صاف انکار کر دیا اور دہرایا کہ مطالبات دے دیئے ہیں، فیصلہ بہت غور کے بعد کرنا ہوگا کہ ماضی کی روایات اچھی نہیں، بہت سی جماعتوں کو آزمایا جا چکا ہے۔
یہ تو سرگرمیوں کے حوالے سے بات آ گئی آج تو ہمیں حزب اختلاف کی بات کرنا ہے۔ اسلام آباد میں ایک دوسری کل جماعتی کانفرنس ہوئی اور اس میں غیر متوقع طور پر متفقہ فیصلے کر لئے گئے اور ان جماعتوں کے درمیان اَنّا کی بناء پر ٹوٹ پھوٹ کی پیشگوئی غلط ثابت ہو گئی، ہماری معلومات کے مطابق اجلاس میں ایثار کا جذبہ پایا گیا اور پیپلزپارٹی نے بھی صاد کیا کہ یہ جماعت تو اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی بجائے اندر جا کر کردار اداکرنے کی حامی اور اس کے لئے کوشش کر رہی تھی، اس میں اسے کامیابی ہوئی کہ مولانا فضل الرحمن کو مطمئن کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ ہو گیا بلکہ ابتدائی پروگرام بھی ترتیب دے دیا گیا۔ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ نہ صرف وزیراعظم بلکہ حزب اختلاف کے قائد کا انتخاب بھی لڑیں گے، چنانچہ یہ خدشہ تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں اس مسئلہ پر تنازعہ ہو جائے، لیکن ایسا نہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر محمد شہباز شریف نے حالات کے مدِ نظر خود ہی پیش کش کر دی کہ وزیراعظم کا انتخاب پیپلزپارٹی لڑے اور قائد حزب اختلاف کا منصب بھی سنبھالے، ان کی اس فراخدلانہ پیشکش کا جواب بھی بڑے دل کے ساتھ دیا گیا اور پیپلزپارٹی کی طرف سے کہا گیا، حزب اختلاف میں بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) ہے اس لئے یہ اس کا حق ہے، لہٰذا قائد ایوان کے لئے امیدوار اور دوسری صورت میں قائد حزب اختلاف بھی مسلم لیگ (ن) ہی کا ہونا چاہیے، اس سے ماحول خوشگوار ہوا اور پھر اگلے فیصلوں میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ جب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے امیدواروں کا مسئلہ آیا تو تعداد ہی کی بنیاد پر فیصلہ ہو گیا، سپیکر کا امیدوار پیپلزپارٹی اور ڈپٹی سپیکر کے لئے متحدہ مجلس عمل کو موقع دے دیا گیا۔ یوں ان جماعتوں نے اب تک تو کسی ’’مفاد‘‘ یا ’’اختلاف‘‘کو آگے نہیں آنے دیا۔

اب ذرا بات کر لی جائے پیپلزپارٹی کی کہ انتخابی مہم اور اس کے بعد ملکی سیاست کے حوالے سے جہاں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تگ و دو نے تعریفی سند حاصل کی وہاں ان کے والد آصف علی زرداری کے بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا گیا۔ بہت بڑے طبقے نے یہ رائے ظاہر کی کہ آصف علی زرداری نے بلاول کو موقع دیا تو اس نے توقعات سے بڑھ کر محنت کی اور پورا اترے، اس سے پارٹی کو بھی فائدہ ہوا اور 2013ء کی نسبت زیادہ اراکین منتخب ہوئے، اس کے علاوہ جو اصولی موقف بلاول نے اختیار کیا وہ بھی قابل تعریف ٹھہرا، تاہم اسی طبقے میں سے ہم خیال حضرات اور مجموعی عوامی رائے کا کہنا ہے کہ اب آصف علی زرداری کو پس پردہ ہی رہنا چاہیے اور بلاول کو پورا موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکے، ایک بردبار سی شخصیت نے تو یہ کہا ’’زرداری کو پارٹی بھی جہیز میں ملی، جہیز والی کی اتنی فکر نہیں ہوتی، اس لئے ان کو بھی پرواہ نہیں‘‘۔ اسی صاحب نے مزید ٹکڑا لگایاجہاں تک بلاول بھٹو کا تعلق ہے تو ان کو یہ جماعت والدہ کی وراثت کے طور پر ملی، یہ جماعت ان کی والدہ اور نانا کی ہے اور ان کی تربیت بھی بی بی نے کی اس لئے صحیح درد تو انہی کو ہو گا۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہتا ہے۔ بہرحال اس بات سے ضرور متفق ہیں کہ بلاول کی کارکردگی بہت اچھی اور وہ بہت واضح موقف اختیار کرکے سیاست کر رہے ہیں اس لئے انہی کو بھرپور موقع ملنا چاہیے، جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے کہ آصف علی زرداری نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں سے تحفظ کے لئے ’’مصلحت اور مصالحت‘‘ کی سیاست کرنا چاہتے اور ذمہ دار حلقوں کی مان کر پھر سے ’’فرینڈلی کردار‘‘ ادا کرنے پر آمادہ ہیں، یہ ان کا اپنا موقف اور فعل ہو سکتا ہے جہاں تک ہمیں بلاول کے بعض قریبی ذرائع سے معلوم ہوا تو وہ یہ ہے کہ بلاول کسی محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہیں تو کسی فرینڈلی موڈ میں بھی نہیں، وہ جماعت کو پھر سے مقبول جماعت بنانے کے لئے کوشاں اور اس کے لئے جماعت کے بنیادی اصولوں اور پہلے منشور کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اسی لئے ان کے اردگرد اور مشاورتی اجلاس میں سینئر اور ترقی پسند حضرات بھی ملتے ہیں، ان قریبی حضرات کا کہنا ہے کہ بلاول نے سوچ سمجھ کر راستہ اختیار کیا اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خود پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ ابتدا ہی میں کر لیا بلکہ بائیکاٹ والوں کو بھی رضامند کر لیا کہ وہ ایوان میں بھی کارکردگی سے متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
قارئین! ہمارا خیال ہے کہ سپیکر کے لئے قرعہ سید خورشید شاہ کا نکلے گا، ان کی جیت کے امکان بھی بتائے جاتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -