عمران خان کو پورا کڑوا گھونٹ بھر لینا چاہئے

عمران خان کو پورا کڑوا گھونٹ بھر لینا چاہئے
عمران خان کو پورا کڑوا گھونٹ بھر لینا چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مجھے کبھی کسی حکمران یا سیاست دان کے دستر خوان کے ذائقوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا۔ایک دو بار دعوتِ دہن آئی بھی تو مَیں نے معذرت کر لی کہ مجھے ’’نمک‘‘ کھانے کی عادت نہیں، بلڈ پریشر کا مریض ہوں، سو کسی وقت بھی نمک میرے سر پر چڑھ سکتا ہے سو معذرت۔۔۔ ہاں اگر تھوڑا بہت تجربہ ہے تو اپنے دوست ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کے دستر خوان کا ، ان کی عادت شریفہ تھی کہ ہر خوشی اور سیاسی غم کے موقع پر ’’پیلے‘‘ لڈو اور چائے کا کپ ہی دان کرتے تھے، کبھی کبھی لاہور آتے تو ’’دیسی ککڑی‘‘ کھلانے کی آفر کرتے، مگر دیسی ککڑی خریدنے سے لے کر پکانے تک اس کی ایسی حالت کرتے کہ خدا گواہ ہے۔ ’’ککڑی‘‘ کھاتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی تھی کہ بے چاری اتنے ظلم سہ چکی ہے اب اسے پیٹ میں اتارنے کا ظلم نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ موصوف مرغی خریدتے ہوئے خود ’’ڈربے‘‘ تک جاتے تھے۔ ایک ایک مرغی کو سر سے پاؤں تک دیکھتے جو پسند آتی۔۔۔ تو آخری امتحان کے طور پر اُس کی کمر پر ایک طمانچہ رسید کرتے،اگر مرغی کی ’’اوں‘‘ نکلتی تو ’’چھری‘‘ کی حق دار ٹھہرتی اور اگر ’’کخ‘‘ نکلتی تو دوبارہ ڈربے میں بند کر دیتے۔اس ’’اوں‘‘ اور ’’کخ‘‘ کے حوالے سے اُن کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر مرغی کی ’’اوں‘‘ نکلے تو وہ ایک صحت مند مرغی ہوتی ہے اور اگر ’’کخ‘‘ نکلے تو اُسے بیمار تصور کیا جائے، ایسے ہی ایک موقع پر انہوں نے ڈربے میں بند سو کے قریب مرغیوں کو بیمار قرار دیتے ہوئے ہمیں ’’دال ماش‘‘ کھانے کا مشورہ دیا۔ اُن کے اِس مشورے پر ہم تو کیا اردگرد کے تمام گاہکوں نے مرغی کا آرڈر کینسل کرتے ہوئے دال ماش کا آرڈر دے دیا۔۔۔ سو اِس موقع پر دکاندار کے چہرے کا جو جلال تھا ۔۔۔ وہ دیکھنے کے لائق تھا،مگر خاموش رہا کیونکہ مرغیوں کو بیمار قرار دینے والا کوئی عام آدمی نہیں، وفاقی وزیر قانون ہے اور اگر مَیں نے ذرا بھی کوئی بات کی تو ’’قانون‘‘ آڑے آ سکتا ہے۔
یہ واحد سیاست دان تھے جن کے دستر خوان کی اس طرح کی لذتوں کا تجربہ ہے۔

باقی سیاست دانوں کے دستر خوانوں کے صرف قصے سنے ہیں، مگر چودھری برادران کے دستر خوان کے قصے تو ہر کوئی سناتا ہے اور مزے لے لے کر سناتا ہے۔ان دِنوں پھر چودھری برادران کے دستر خوان کے قصے سنائی دے رہے ہیں۔۔۔ چودھری برادران دیہاتی پس منظر کے لوگ ہیں۔۔۔ اور اپنی اِسی خوبی کی بنا پر پنجاب بھر میں اُنہیں پسند بھی بہت کیا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ چودھری سیاسی طور پر آخری کمال تک پہنچے،جب انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے اندر سے ایک مسلم لیگ(ق) نکالتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے لئے ایک عوامی طاقت فراہم کی۔ انہی دِنوں عمران خان بھی جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ شخص کے طور پر بہت نمایاں ہوئے اور امید کی جا رہی تھی کہ آئندہ وزیراعظم عمران خان ہوں گے۔انہی دِنوں اچانک عمران خان کی سیاسی ہی نہیں نجی زندگی پر بھی حملے ہوئے،جمائمہ خان کے حوالے سے طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے اور پھر وہ عمران خان جو پورے مُلک میں چھایا ہوا تھا۔۔۔ اچانک فضا بدلی اور پورے مُلک سے صرف ایک سیٹ میانوالی سے جیت سکا۔اس کے بعد چودھری برادران مُلکی سیاست پر چھا گئے۔ وفاق سے لے کر تمام صوبوں تک اُن کا ’’راج‘‘ قائم ہو گیا۔ چودھری برادران کا کمال جوں جوں بڑھتا گیا، عمران خان کا سیاسی زوال زیرو سے بھی نیچے تک آ گیا۔۔۔ نواز شریف فیملی سمیت جلا وطن ہو چکے تھے،اور مُلک میں مسلم لیگ(ق) ہی بڑی جماعت کے طور پر چمک رہی تھی۔۔۔ پیپلزپارٹی کے دور میں بھی چودھری برادران سیاسی طور پر نمایاں رہے۔۔۔اور عمران خان کی سیاست اوپر نہ اُٹھ سکی۔۔۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد چودھری برادران کی سیاست کا سورج غروب ہو گیا۔۔۔مگر وہ ’’اچھے‘‘ وقت کے انتظار میں بیٹھے نہیں،بلکہ حرکت میں رہے۔ شیخ رشید کی اول دِن سے کوشش تھی کہ عمران خان اور چودھری برادران کے ساتھ ’’ہتھ جوڑی‘‘ کر لیں، مگر عمران خان ’’ماضی‘‘ کے زخم بھلانے کے لئے تیار نہیں تھے،مگر اب دونوں کے درمیان باقاعدہ سیاسی رابطہ ہو چکا ہے۔
عمران خان جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پانی کا گلاس تک نہیں پوچھتے۔ انہوں نے چودھری برادران کے ساتھ باقاعدہ ڈنر کیا اور ماضی کی تلخیوں کو بھلانے کا عزم بھی کیا۔۔۔ اس وقت کے حالات کا تقاضہ بھی تھا کہ عمران خان چودھریوں والا ’’کوڑا گھٹ‘‘ بھر لیتے، سو انہوں نے یہ ’’کوڑا گھٹ‘‘ بھر لیا ہے، مگر پورا نہیں بھرا۔ چودھری برادران پنجاب کے حوالے سے بہت اہم سیاست دان ہیں۔ بہت سے سیاسی گھرانوں کے ساتھ ان کے سیاسی اور ذاتی تعلقات ہیں۔پنجاب کی سیاست میں نواز شریف یا شہباز شریف کا کوئی ’’حقیقی توڑ‘‘ہے تو وہ چودھری برادران ہی ہیں۔ پنجاب کی حکمرانی کے حوالے سے بھی ان کے پاس ’’تجربہ‘‘ موجود ہے، ان کے دستر خوان کی خوشبو بھی دِل کو مہکاتی ہے۔

روایتی رکھ رکھاؤ سے بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں مہارت رکھتے ہیں، بیورو کریسی میں بھی ان کے ہاتھ گہرے ہیں۔سو اگر عمران خان نے چودھری برادران کا ’’کوڑا گھٹ‘‘ بھر لیا ہے تو پھر انہیں چاہئے کہ وہ پورا ’’کوڑا گھٹ‘‘ بھریں۔ ’’ادھورے گھٹ‘‘ سے وہ فیوض وبرکات حاصل نہیں کر سکیں گے جو ’’پورے گھٹ‘‘ سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں بڑی ’’پارٹنر شپ‘‘ بڑے فوائد دیتی ہے سو عمران خان کو چاہئے کہ وہ بڑی’’پارٹنر شپ‘‘ کے لئے آگے بڑھیں۔ اگر وہ پنجاب کے تخت پر علیم خان، شاہ محمود قریشی یا کسی دوسرے کو لانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں کون روک سکتا ہے۔۔۔مگر عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے آنے والے سو دِنوں میں ’’صوبہ جنوبی پنجاب‘‘بھی بنانا ہے تو اِس طرح جنوبی پنجاب میں ان کی جماعت کا وزیراعلیٰ بھی تو آ سکتا ہے کہ نہیں۔۔۔؟

مزید :

رائے -کالم -