پرانے ڈھانچے پر نیا پاکستان بنانے کی خواہش

ڈاکٹر عائشہ جلال کا شمار ایسے مورخین اور دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تحقیق اور علم و دانش سے دیار مغرب کو بھی متا ثر کیا۔
عائشہ جلال کو جنوبی ایشیا، خاص طور پر بر صغیر کی سیاسی تاریخ کی اتھارٹی تسلیم کیا جا تا ہے۔
اس خطے کی سیاسی تاریخ کے طالب علموں کے لئے عائشہ جلال کی کتا بیں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ 1995ء میں منظر عام پر آنے والی کتاب Democracy and Authoritarianism in South Asia میں عائشہ جلال نے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ، بر طانوی سامراج کے سیاسی اثرات کا زبر دست تجزیہ کر تے ہوئے دیگر کئی با توں کے علاوہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات نے شروع سے ہی اپنی سیاسی حمایت کے لئے ’’مقامی اشرافیہ‘‘ جن کو ہم اپنے علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے طبقات یا اگر آج کل کی سیاسی اصطلاح میں بات کی جائے تو ’’الیکٹیبلز‘‘ پر انحصار کیا۔ ظاہر ہے پاکستان کی تاریخ پر ذرا سی بھی نظر رکھنے والے کسی انسان کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں کہ شروع سے لے کر اب تک پاکستان میں سول اور فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاسی طا قت کے لئے مخصوص علا قوں کی مقامی اشرافیہ پر ہی انحصار کیا،مگر عا ئشہ جلال کی اس کتا ب کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت کے حکمران طبقات نے بھی ہمیشہ اپنی سیاسی طا قت کے لئے انتخابی سطح پر ’’ مقامی اشرافیہ‘‘ پر ہی انحصار کیا۔ آزادی کے ساتھ ہی کا نگرس پارٹی کئی عشروں تک آسانی سے اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو تی رہی، مگر یہ انتخابات جیتنے کے لئے کا نگرس کو انتخابی حلقوں میں ’’مقامی اشرافیہ‘‘( اونچی ذات ، بڑے زمین داروں، ذاتوں پر اثر رکھنے والے طبقات، حلقے کی برا دریوں اور فرقوں پر اثر رکھنے والے طبقات ، مذہبی رہنماؤں) پر انحصار کر نا پڑا اور اسی کے باعث کا نگرس پا رٹی با ر بار انتخابات جیتنے میں کا میا ب ہو تی رہی۔
آپ لوگ یقیناًیہ سوچ رہے ہوں گے کہ پا کستان میں انتخابی موسم کے موقع پر جب انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور حکومت سازی کا عمل جا ری ہے جلد ہی مر کز اور تما م صوبوں میں حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں تو ایسے میں، میں عا ئشہ جلال کی کتا ب اور بھارتی انتخابا ت کو کیوں بیچ میں لے آیا؟اگر بھارت میں کا نگرس پارٹی اور بعد میں آنے والی حکمران جما عتیں انتخابات میں کامیا بی حاصل کر نے کے لئے مقامی اشرا فیہ کو اپنے ساتھ ملاتی رہی ہیں تو اس مثال کی پاکستان کے لئے کیا اہمیت ہے؟
دراصل عائشہ جلال کی اس کتاب اور بھارتی انتخابات کی مثا لیں مجھے اِس لئے یا د آ رہی ہیں، کیونکہ انتخابات سے پہلے اور اب انتخابات کے بعد جس طرح عمران خان اور تحریک انصاف سیاسی حمایت کے حصول کے لئے تیزی سے ’’مقامی اشرافیہ‘‘ (روایتی سیاست دانوں، زمین داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، پیروں) حتیٰ کہ اسٹیٹس کو کے علمبر داروں کی مدد لے رہی ہے اور اس سب پر عمران خان اور ان کے ساتھی یہ جواز دے رہے ہیں کہ ’’ہم مانتے ہیں کہ ہما رے ساتھ شامل ہونے والے افراد ایمان دار نہیں ہیں اور اسٹیٹس کو کے حامل ہیں، لیکن اگر لیڈر ایماندار ہو تو ایسے میں کرپشن نہیں ہو سکتی،بلکہ نظام بھی تبدیل ہو سکتا ہے‘‘۔اب ہم ایک مرتبہ پھر بھارت کے سیاسی نظام کی طرف دیکھتے ہیں۔
بھارت کی سیاست پر ذرا سی بھی نظر رکھنے والے طالب علم کو معلوم ہے کہ بھارت میں ایسے رہنماؤں اور سیاست دانوں کو بھی حکمرانی کرنے کا موقع ملتا رہا ہے، جو نہ صرف مالی طور پر کرپٹ نہیں تھے،بلکہ سیاسی وژن،سیاسی فلسفہ اور تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔جیسے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ہی مثال لیجیے۔
نہرو کے بھرپور سیاسی وژن اور تاریخ پر گہری نظر کا اندازہ نہرو کی کتابوں ’’The Discovery of India‘‘ اور ’’Glimpses of World History‘‘ سے ہو جاتا ہے ۔ نہرو سماج کو بدلنے کے لئے ایک پورا سماجی فکر اور سوچ رکھتے تھے اور اسی نہرو کو بھارت میں17سال حکومت کرنے کا موقع ملا۔ کیا نہرو ، بھارتی سماج کو اپنے وژن اور سوچ کے مطابق بدل پائے؟غربت، ذات پات، جہالت کو ختم کر پائے؟ یقیناًنہرو ایسی سوچ رکھنے کے با وجود بھارتی سماج کو اپنے وژن میں ڈھالنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
نہرو کے بعد اندرا گاندھی کے دور میں ان کے بیٹے سنجے گاندھی پر کرپشن کے الزامات سامنے آئے،اندرا گا ندھی کے مخالفین اس پر کئی طرح کے الزامات عائد کرتے ہیں، مگر اندرا گاندھی کو مالی طور پر بد دیانت نہیں مانا جاتا۔ حال کی مثالوں کو دیکھیں تو اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ ایسے بھارتی وزرائے اعظم رہے ہیں جن پر ذاتی طور پر مالی بددیانتی کا الزام نہیں لگا۔ من موہن سنگھ دس سال 2004ء سے2014ء تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔
اس دور میں بھارت میں کر پشن کے اتنے بڑے بڑے سکینڈلز سامنے آئے جن کے با عث پوری دنیا میں بھارت کا امیج بری طرح سے مجروح ہوا۔اس کے باوجود من موہن سنگھ کی اپنی ذات کرپشن کے الزامات سے محفوظ رہی۔
کیا وجہ ہے کہ ایسے وزرائے اعظم (جن کے ’’سوئس اکاؤنٹس‘‘ نہیں تھے، جو ’’منی لانڈرنگ‘‘ یا ’’ آمدنی سے زائد اثا ثوں‘‘ کے مالک نہیں تھے) ملنے کے باوجود بھارت میں کرپشن میں اضافہ ہو تا رہا ، غریبی اور جہالت قائم رہی اور سماجی نظام بھی زوال پذیر ہو تا رہا؟یہی ہے وہ سوال جس کا جواب ہمیں عائشہ جلال کی کتاب Democracy and authoritarianism in South Asia میں مل جاتا ہے کہ بھارت کے حکمرانوں نے بھی سیاسی حمایت کے حصول کے لئے ’’مقامی اشرافیہ‘‘ سے سمجھوتے کئے،جس کے باعث بھارت میں کوئی بڑی سماجی تبدیلی نہیں آ سکی۔
اب اگر اس صورتِ حال کا پا کستان کی مو جودہ صورتِ حال پر اطلاق کریں تو عمران خان اورانکے قریبی ساتھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’’الیکٹیبلز‘‘ اور روایتی سیاست دانوں کو ساتھ ملانے کے باوجود اب پا کستان کا نظام بدل جائے گا، کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ دعویٰ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سیاسیات کے اس بنیا دی اصول کو سمجھا جائے کہ کسی بھی سیاسی نظام میں اس وقت تک بنیادی تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک اس کے ڈھانچے کو ہی تبدیل نہ کر دیا جائے۔
کیا تحریک انصاف ’’الیکٹیبلز‘‘ اور روایتی سیاست دانوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس ڈھانچے کو بدل پائے گی؟ بھارت سمیت دُنیا کے کسی بھی جمہوری مُلک میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پرانے اور کرپٹ ڈھانچے کی بنیاد پر کسی قسم کی بنیادی تبدیلی آئی ہو۔
عمران خان اپنے جلسوں اور تقریروں میں بار بار چین کی ترقی کی مثال دیتے ہیں کہ کیسے چین نے کروڑوں افراد کو غربت اور جہا لت سے با ہر نکالا؟یہاں پر بنیا دی سوال یہ ہے کیا چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ’’الیکٹیبلز‘‘کو ساتھ ملا کر ترقی کی۔
اس سوال کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے مُلک میں انقلابی اور جوہری اصلاحات متعارف کروائیں، پرانے ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ تعمیر کیا، جس کے باعث چین آج دُنیا کی اُبھرتی ہو ئی سپر پاور بننے کے قابل ہوا۔
تحریک انصاف کی قیادت اگر پرانے ڈھانچے پر کھڑے رہ کر یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ کوئی سیاسی کرشمہ ہی ہو گا۔چلیں پا کستان کی بہتری کے لئے کسی کرشمے کا ہی انتظار کر لیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ابھی تحریک انصاف کی حکومت کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا۔
عمران خان کی ٹیم ابھی میدان میں نہیں اُتری۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے تو ہماری یہی خواہش ہونی چاہئے کہ پاکستان کو ایک اچھی حکومت ملے، معاشی معاملات میں بہتری آئے۔
لوگوں کو روزگار ملے، کرپشن کا خاتمہ ہو، سب کو انصاف ہوتا نظر آئے اور ہمارا سماج بہتری کی جانب آگے بڑھے۔
اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان پرانے ڈٖھانچے پر کھڑے ہوکر کس طرح ’’ نیا پا کستان ‘‘ بناتے ہیں۔