عمران خان: وقت کم اور مقابلہ سخت ہے؟

پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی قیادت کی نشست سنبھالنے والی ہے، عمران خان 22برسوں سے مروجہ قیادت کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے، لیکن کامیابی افق کے اس پار بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
2013ء میں شکست کھانے کے بعد انہوں نے دھرنے اور لاک اپس کے ذریعے حکومت گرانے کی جدوجہد کی، اس ’’عظیم الشان جدوجہد‘‘ میں قائد انقلاب قبلہ پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت شریک تھے۔
عمران خان اور علامہ صاحب نے مل جل کر حکومت گرانے کی ’’عظیم الشان‘‘ جدوجہد کی،لیکن وہ نواز شریف کے عزم صمیم کو کمزور نہ کر سکے۔
اِس معاملے میںآرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مثبت کردار کے باعث معاملات ملکی نظام کی بربادی اور تباہی تک نہ پہنچے وگرنہ فوج کے لئے مارشل لاء لگانے کا سنہری موقع تھا، جس سے انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا۔بہرحال عمران خان نے اِس سے ایک سبق سیکھا کہ قیادت کی تبدیلی کے لئے اِسی قیادت کے ہمنواؤں کو ساتھ ملانا ضروری ہے، نظریاتی سیاست کے ذریعے ، خوبصورت بیان بازی کے ذریعے نوجوان کا خون توگرمایا جا سکتا ہے،لیکن قیادت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ قیادت کی تبدیلی کا وہی نسخہ کامیاب ہے، جس پر جنرل ایوب خان نے عمل کیا تھا، جس پر چل کر ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے تھے،یعنی الیکٹ ایبلز کی سیاست۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دیگر جماعتوں سے اکھاڑ بچھاڑ کر کے ممکنہ طور پر جیتنے والوں کو پی ٹی آئی میں دھکیلا گیا۔ایک لمبی لائن لگ گئی، لوگوں کو دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں شامل کروایا جانے لگا، اس کے ساتھ ساتھ پانامہ لیکس کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دے کر پارٹی سربراہی سے بھی ہٹا دیا گیا، پھر طویل جیل یاترا کے لئے اڈیالہ بھجوا دیا گیا۔ سیاسی میدان کو خان صاحب کے لئے ہموار اور شفاف رکھنے کے لئے نواز شریف کی بیٹی اور مسلم لیگ(ن) کی طاقتور ترین کھلاڑی مریم نواز کو بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
یہ ایک الگ اہم موضوع ہے کہ اس کرپشن کیس میں انصاف کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا،لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں2018ء کے الیکشنوں میں مقابلے کے لئے چھوڑا گیا۔ یہ بھی ایک الگ موضوع ہے کہ الیکشن 2018ء کتنے آزادانہ اور منصفانہ تھے،ان میں کتنی دھاندلی کی گئی،ان الیکشنوں کے انعقاد سے پہلے ہی ان کے غیر منصفانہ ہونے کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔
الیکشنوں کے بعد 25جولائی کی رات ہی الیکشن میں دھاندلی کا شور اٹھنا شروع ہو گیا تھا پھر ہم نے دیکھا کہ مُلک کی چھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کا شور مچانا شروع کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی انتخابی عمل کے بارے میں اتنی سیاسی جماعتیں متحد ہوئی ہوں۔ دھاندلی اور اس کی تحقیقات کی آوازیں سینیٹ میں بھی سنی جا رہی ہیں۔
اس سے پہلے 1977ء کے انتخابات میں متحدہ قومی اپوزیشن نے ذوالفقار علی بھٹو حکومت پر قومی اسمبلی کی نشستوں کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور پھر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی،جو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔ 5جولائی1977ء کو جب جنرل ضیاء الحق نے مُلک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تو ہم نے دیکھا کہ پوری قوم نے شکرانے کے نوافل ادا کئے،مٹھائیاں تقسیم کیں، حلوے کی دیگیں بانٹی گئیں، لوگوں نے پیپلزپارٹی حکومت کی فسطائیت سے نجات پر فوج کا شکریہ ادا کیا تھا۔بہرحال اب یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چھ سیاسی جماعتیں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایوان بالا میں بھی الیکشن2018ء کے غیر منصفانہ ہونے کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔یہ معاملات چلتے رہیں گے، پاکستان نے 11ویں عام انتخابات2018ء کے انعقاد کے بعد ایک منزل طے کر لی ہے،ہم جمہوری سفر میں جیسے تیسے بھی آگے بڑھے ہیں، قوم کے اجتماعی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔آزاد میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے،قومی مسائل کے بارے میں آگہی و شعور میں اضافہ ہوا ہے۔
سوشل میڈیا اپنی تمام تر خرابیوں و خامیوں سمیت کردار ادا کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی سیاسی جماعت عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انحراف کر کے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی،انہیں پاکستان کی تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہو گا۔
بات ہو رہی تھی پی ٹی آئی کے ایوانِ اقتدار میں داخلے کی۔ سیاسی منظر میں اب دو امکانات ہیں۔
ایک امکان تو یہ ہے کہ عمران خان گزرے دس برسوں کے دوران بالعموم اور پانچ برسوں کے دوران بالخصوص اپوزیشن میں بیٹھ کر جو کہتے اور کرتے رہے ہیں،انہیں ویسا ہی کچھ سننے اور دیکھنے کو ملے گا۔
اپوزیشن بشمول مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتیں ایسا ہی کچھ کرنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آ رہی ہیں۔
لگتا ہے کہ عمران خان کو بہت زیادہ موافق اور ہموار ماحول دستیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے بہت سے ایسے وعدے وعید کر رکھے ہیں، جنہیں پورا کرنے کی نہ تو ان میں صلاحیت نظر آتی ہے اور نہ ہی ملکی حالات ایسے ہیں کہ وہ ان وعدوں کے مطابق نتائج پیدا ہوں۔مثلاً انہوں نے کشکول توڑنے کا کہا تھا اور اب باتیں ہو رہی ہیں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات کرنے کی۔ انہوں نے ٹیکس وصولیوں کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا،جبکہ عالمی اداروں کے تخمینہ جات کے مطابق معیشت میں نمو میں سردست بالکل ہی گنجائش موجود نہیں ہے،اِس لئے دس ملین ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ پورا ہوتا بالکل نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان اِس وقت93 ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ جات کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، لئے گئے کمرشل قرضہ جات پر سود اور اصل زر کی ادائیگی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس سے فرار کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔
سب سے اہم بات کارکردگی دکھانے کے بارے میں وہ توقعات ہیں،جو عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں پیدا کرتے رہے ہیں۔انہوں نے لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ’’پاکستان کا اصل مسئلہ‘‘ ’’کرپٹ قیادت‘‘ ہے، اگر اسے تبدیل کر دیا جائے تو پاکستان میں عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے، یہاں دودھ شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی‘‘۔
اب یہ سب کچھ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے، امیدوں کا ایک بحر بیکراں ہے جو کناروں سے اُبلنے کو ہے۔
’’وقت کم اور مقابلہ سخت‘‘ ہے، پاکستانی عوام کے مسائل کی ذمہ دار قیادت جیل میں ڈالی جا چکی ہے، عوام نے قیادت کا سہرا عمران خان کے سرباندھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) آؤٹ اور پی ٹی آئی اِن ہو چکی ہے، پاکستانی عوام کی نفسیات کا 70سالہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ بہت بے صبرے ہیں، عمران خان کے دورِ حکمرانی کے سو دن بڑے اہم ہیں، انہیں عوامی توقعات کے حوالے سے فوری طور پر ڈیلیور کرنا ہو گا وگرنہ عوام میں ’’مایوسی‘‘ کا پیدا ہونا لازمی ہے۔طاقتور اپوزیشن تو روزِ اول سے ہی عمران خان کے خلاف گھات لگائے بیٹھی ہے۔
عمران خان نے بطور اپوزیشن جو سلوک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں کے ساتھ کیا ہے، اب اُنہیں اسی قسم کے رویئے کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ مَیں ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو ’’کارکردگی دکھانے اور ڈیلیور کرنے‘‘ کا نہ صرف بھرپور موقع دینا چاہئے،بلکہ ہمیں ان کی مدد بھی کرنی چاہئے، کیونکہ پاکستان اِس وقت جن سیاسی، معاشی اور سفارتی حالات کا شکار ہے، اس میں ہمارے لئے کوئی دوسرا آپشن بچا ہی نہیں ہے۔
ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جس قسم کے حالات پیدا ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری قومی سلامتی کے لئے جس قسم کے خطرات موجود ہیں،ان کا تقاضا ہے کہ عمران خان کامیاب ہوں، پاکستان کے فوری اور وسیع تر مفاد میں ان کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔
عمران خان کیونکہ قومی قیادت کا منصب سنبھالنے جا رہے ہیں،اِس لئے معاملات میں بہتری کی ذمہ داری بھی انہی کی ہے۔اِس وقت قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔
قومی اتفاق اور یکجہتی کے بغیر وہ کچھ ڈیلیور نہیں کر سکتے، اِس لئے سب سے پہلے انہیں چاہئے کہ وہ پی ٹی آئی کے نہیں، بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کا بندوبست کریں۔یکجہتی کی فضا پیدا کرنا ان کے اپنے بھی مفاد میں ہے۔
پہلے قدم کے طور پرانہیں اپنے پارٹی ورکرز کی زبان درازی پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہئے، اپنے مخالفین کے خلاف بدکلامی پر حتمی طور پر پابندی کا حکم جاری کرنا چاہئے، تاکہ مخالفین پر اخلاقی دباؤ بڑھے۔
اس کے ساتھ ہی انہیں نواز شریف کی عیادت کا قدم اٹھا کر قوم کو یہ پیغام دینا چائے کہ وہ پی ٹی آئی کے سربراہ نہیں، پاکستان کے لیڈر ہیں۔دوسرے قدم کے طور پر انہیں اسمبلی کے اندر اور باہر تمام اپوزیشن رہنماؤں کو قومی معاملات کے حل کے لئے مشاورت کے لئے بلانا چاہئے،انہیں دعوت دینی چاہئے کہ وہ آئیں، ان کے ساتھ مل بیٹھیں، مشاورت کریں اور متفقہ لائحہ عمل تیار کریں تاکہ جب عمران خان کی حکومت کچھ کرنے کے لئے آگے بڑھے تو اپوزیشن بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو،ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ کرے،کیونکہ مسائل اس قدر گھمبیر ہیں کہ وہ اکیلے یا صرف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انہیں ہر گز حل نہیں کر سکتے، جبکہ عمران خان کے پاس ’’کامیابی اور مکمل کامیابی‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ہمیں بطور قوم ایک دوسرے کو انڈین اور یہودی ایجنٹ قرار دینے کی روش سے باہر نکلنا ہو گا۔الزامات لگانے اور ثابت کرنے کے کلچر کے خاتمے کی کاوشیں کرنا ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔
قومی مسائل کی نوعیت،انہیں حل کرنے کے لئے ترجیحات اور لائحہ عمل مرتب کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا عمران خان کی ذمہ داری ہے،اس ذمہ داری سے وہ جتنی جلدی عہدہ برآء ہوں گے اتنا ہی ان کے لئے اچھا ہو گا اور پاکستان کے لئے بھی،کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔