وزیر اعظم ، وزیر اعلٰی بلوچستان اور صدر کے انتخابات میں اختر مینگل بادشاہ ابن گئے
لاہور (میاں ہارون رشید سے)عام انتخابات کے بعد پارلیمانی سیاست میں بڑی تبدیلی آگئی، تحریک انصاف کے نئے پاکستان میں 63 نئے سیاسی چہرے قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، 2018ء کے الیکشن میں تبدیلی کی ایسی ہوا چلی کہ بہت سے گھاگ قسم کے سیاستدانوں کو گھروں میں بیٹھنا پڑ گیا، پی ٹی آئی کے انتخابی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 63 نو منتخب ارکان اس سے قبل کبھی ایوان زیریں کا حصہ نہیں رہے ہیں، تبدیلی کی ہوا میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 116 ارکان منتخب ہوئے ہیں ان میں سے 30 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی، کھلاڑی بننے والوں میں غلام محمد لالی، افضل ڈھانڈلہ، ذوالفقار دلہہ، عمر ایوب خان، غلام بی بی بھروانہ، وغیرہ شامل ہیں، اس صورتحال میں 9 ایسے ارکان ہیں جنہوں نے جنوبی صوبہ پنجاب محاذ کا علم اٹھایا اور اپنی قیادت سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کے سپرد کی، صوبہ جنوبی پنجاب محاذ میں شامل رہنے والے مخدوم خسرو بختیار، عامر گوپانگ، جعفر لغاری اور نصر اللہ دریشک نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر فتح حاصل کی، مسلم لیگ (ن) کے 5، پیپلز پارٹی کے 3 اور ایم ایم اے کے 2 سابق ارکان اسمبلی بھی تحریک انصاف کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے سفر کو شروع کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، تبدیلی کے اس سفر میں لیاری سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کوشکست سے دو چار کرنے والے بھٹو کے جیالے شکور شاد پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے، شکور شاد کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ ایف آئی اے میں ملازم تھے اور انہوں نے سیاست میں آنے کے لئے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا، فرخ حبیب، شاہد خٹک، فیض اللہ کھوکھر، زین قریشی، زرتاج گل، علی زیدی اور قاسم سوری بھی پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے پاکستان میں تبدیلی کے اس سفر میں نئے آنے والے ارکان اسمبلی عمران خان کا کہاں تک ساتھ دینے میں کامیاب ہوتے ہیں، 14 اگست کو متوقع وزیراعظم عمران خان کے حلف اٹھانے کے بعد تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوجائے گا اور جس کا ہر کسی کو شدت سے انتظار ہے، عوام کی نظریں اب تحریک انصاف کے ایجنڈے پر لگی ہوئی ہیں، ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے تبدیلی ضرور آئے گی اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے۔تحریک انصاف نے ابھی تک سفر کا آغاز نہیں کیا حکومتیں بننے اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، تبدیلی کے اس سفر میں عمران خان کو شروع سے ہی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صد سردار اختر مینگل وزیراعظم، وزیراعلیٰ بلوچستان اور اپنے صدر مملکت کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں، جو صورتحال نظر آرہی ہے اس میں وہ جس پارٹی کا ساتھ دیں گے اس کا وزیراعظم منتخب ہوگا اور اس کے علاوہ صدر ممنون حسین کی مدت مکمل ہونے کے بعد ستمبر کے پہلے ہفتے میں صدارتی الیکشن میں بی این پی (مینگل) کے 5 ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، حکومت سازی کے معاملات کو حل کرنے کے لئے ابھی تک سردار اختر مینگل سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے وفد نے دو اہم ملاقاتیں کی ہیں، جبکہ (بی اے پی) بلوچستان کے صدر اور وزارتِ اعلی کے امیدوار جاوید کمال نے بھی ان سے ملاقات کی ہے، میڈیا پر یہ خبر بھی گراش کررہی ہے کہ سردار اختر مینگل نے تحریک انصاف کے وفد کو اپنے 6 نکاتی مطالبات پیش کئے ہیں جن کا جواب متوقع وزیراعظم عمران خان نے ابھی دینا ہے جس کے بعد اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ عمران خان اور سردار اختر مینگل کی ملاقات ہونی ہے یا نہیں، ممبرز گیمز کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اس وقت (بی این پی) کے 7 ارکان ہیں اور خواتین کی مخصوص نشستیں ملا کر ان کی تعداد 10 ہوجائے گی جبکہ قومی اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 4 ہے اور سینیٹ میں بھی ان کا ایک رکن ہے، صورتحال سے یہ معلوم ہورہا ہے سردار اختر مینگل کی پارٹی کے ووٹ اس طرح عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لئے ضروری ہیں جس طرح ایم کیو ایم کے ووٹ ضروری ہیں، وقت کم اور سفر طویل ہے، حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے، دو روز میں صورتحال واضح ہوجائے گی جس کے بعد تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوگا۔
مینگل بادشاہ گر