پنجاب کی وزارت اعلیٰ ، بہترین انتخاب کون؟

پنجاب کی وزارت اعلیٰ ، بہترین انتخاب کون؟
پنجاب کی وزارت اعلیٰ ، بہترین انتخاب کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بنی گالہ میں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مشاورت جاری ہے ۔ویسے تو مجھ جیسے سیکڑوں کالم نگار اپنی اپنی فیورٹ شخصیات کے متعلق قیاس آرائیاں کر رہے ہیں ۔ تا ہم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے گزشتہ دنوں اس کے متعلق ایک بیان میں کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کانام قوم کے لیے سر پرائز ہو گا ۔ پی ٹی آئی کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں تو نہ مل سکیں لیکن آزاد ارکان اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے وہ یہ سنگ میل ضرور عبور کرلے گی ۔ پی ٹی آئی کو اس میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی ۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق پنجاب سے 6ایم پی ایز پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے اسے 153ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے ۔ یہ بات تو طے ہے کہ وفاق، کے پی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ضرور بنے گی ۔ بلوچستان کے لیے بھی کوشش جاری ہے ۔ اب پنجاب جہاں مسلم لیگ ن نے بھی 129نشستیں حاصل کی ہیں دعویٰ کر رہی ہے کہ پنجاب میں حکومت بنانا ان کو آئینی اور جمہوری حق ہے ۔ درست ، لیکن حکومت بنانے کے لیے خواہش کے بجائے ارکان کی عددی برتری کو دیکھا جاتا ہے ۔ ن لیگ کی طرف سے بھی درجن کے قریب ارکان پنجاب اسمبلی کی خاموش حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ۔یہ خاموش حمایت چور دروازے سے آتی ہے ۔ جس نے ساتھ دینا ہوتا ہے وہ سامنے دروازے سے آتے ہیں ۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ عمران خان کے لیے ایک آزمائش بن چکی ہے ۔ یہ بات درست بھی ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور لاہور جیسا پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اس کا صوبائی دار الخلافہ ہے جہاں پی ٹی آئی کی مخالف جماعت نے دس سال تک لگاتار حکومت کی ہے اور یہ شریف خاندان کا آبائی شہر بھی ہے ۔ یہ الگ بات کہ ن لیگ کے پاس شہباز شریف سے بہتر امیدوار ہونے کے باوجود اس نے یہ اہم وزارت اعلیٰ اپنے پاس ہی رکھی ۔ اب دس سال تک جس شہر کے سیاہ و سفید کے وہ مالک رہے اس میں ان کے مضبوط دھڑوں کا قائم ہونا ایک لازمی امر تھا۔ اس کے علاوہ ایک سب سے اہم فیکٹر بلدیاتی نمائندوں ، یو سی چیئرمین اور ضلع و تحصیل چیئرمین کا ہے جنہیں کروڑوں روپے کے فنڈز ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے دیے جاتے تھے ۔اس کا اندازہ لاہور میں حالیہ انتخابات کے نتائج سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے ۔ بلدیاتی اداروں اور پسند کی بیوروکریسی نے ن لیگ کو گلی محلوں کی سطح تک قائم رکھا ہوا ہے ۔ عوام الناس کی سہولتوں کے منصوبے ان سے الگ ہیں۔یوں پنجاب اور خصوصالاہور ن لیگ کی گرفت میں ہے۔ پنجاب کا ایک ضلع ایسا بھی ہے جہاں سے پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ۔ اب وقت گزر چکا ہے ۔ پی ٹی آئی کی حلقہ39کی صوبائی سیٹ منصور سرور کے بیٹے کے سوا کسی کو بھی ملی ہوتی تو وہ یہ سیٹ جیت سکتا تھا ۔


اب جو پارٹی مسلسل دس سال سے پنجاب اور پانچ سال سے وفاق میں حکومت کرتی رہی ہے اس کی گرفت کو توڑنے کے لیے اسی شہر سے وزیر اعلیٰ نا لیا جائے تو فرق پڑے گا ۔ جس علاقے کا سانپ ہو سپیرا بھی اسی علاقے کا ہونا چاہیے ۔ گزشتہ دنوں عمران خان کی لاہور میں متوقع آمد اسی سلسلے میں تھی کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے نام کو مشاورت سے حتمی شکل دے سکیں ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں عبدالعلیم خاں، طاہر صادق ، چوہدری فواد ، رائے مرتضیٰ اور اسلم اقبال شامل ہیں ۔سینئر تجزیہ کاروں کے مطابق اگر عمران خان کسی دباؤ میں آکر کسی امیدوار کے نام پر سمجھوتا کر لیتے ہیں تو مستقبل میں پی ٹی آئی کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔ کیوں کہ بنجاب میں مضبوط اپوزیشن ہونے کی وجہ سے حکومت چلانا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ پی ٹی آئی کے پاس معمولی اکثریت ہو گی۔ ایک اچھی ساکھ کا حامل، مضبوط اور دانشمند شخص ہی پنجاب کو سنبھال پائے گا۔ اسے کارکنوں کو یقین دلانا پڑے گا کہ جس تبدیلی کے لیے انہوں نے تگ و دو کی اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو ہرایا ہے وہ لائی جا رہی ہے ۔ اب عمران خان کے ذہن میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی کیا کوالیفکیشن ہے اس کا پتا ان کے فیصلے کے بعد ہی سامنے آئے گا ۔


جن امیدواروں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں سر فہرست علیم خاں کا نام ہے جو گزشتہ چھ سال سے پی ٹی آئی کی مہم چلانے میں نمایاں رہے ہیں ۔ انہوں نے پارٹی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے اور اپنے کاروبار( رئیل اسٹیٹ ) کا بھی نقصان کیا ۔ لاہور میں انہوں نے اپنے پارٹی دفتر اور گھر کے دروازے خاص و عام کے لیے کھلے رکھے ۔ انہیں پارٹی کے کئی ایک اہم عہدیداروں کا اعتماد اور حمایت بھی حاصل ہے ۔ان میں جہانگیر ترین پیش پیش ہیں ۔ عام خیال یہی ہے کہ جس کی حمایت جہانگیر ترین کریں گے اسے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا ۔ چوں کہ تحریک انصاف کا محور عمران خاں ہیں اور وہ جہانگیر ترین کی رائے کو نظر انداز نہیں کرتے ۔ اس لیے بھی علیم خاں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے موزوں ترین امیدوار ہیں ۔ اگرچہ چکوال گروپ بھی اس سلسلے میں کافی متحرک نظر آ رہا ہے لیکن لاہور میں کسی ایسے شخص کا بااختیار ہونا تحریک انصاف کے لیے ضروری ہے جو اس شہر کی الف ب سمجھتا ہو ۔ علیم خان پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران کابینہ کاحصہ رہے ہیں ۔انہیں دیگر امیدواروں کی نسبت پنجاب خصوصاً لاہور کے متعلق زیادہ جانکاری ہے اور یہی ان کی کوالیفکیشن ہے ۔ علیم خاں خود کاکزئی پٹھان ہیں۔ یہ بھی ایک مضبوط خاندانی پس منظر ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ شریف خاندان کے سامنے کھڑا ہونے کی جرأت رکھتے ہیں ۔ لاہور میں اگر ن لیگ کے ساتھ کوئی دال بانٹتا ہے تو وہ علیم خان ہی ہیں۔ جہاں تک ان کے خلاف نیب میں انکوائری کا تعلق ہے تو یہ محض انکوائری ہے ۔ کوئی فرد جرم نہیں کہ اس سے انہیں پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے ۔

مزید :

رائے -کالم -