لغاری خاندان کو شکست دینے والی پی ٹی آئی کی زرتاج گل دراصل کون ہیں؟ وہ باتیں جو آپ کو معلوم نہیں

لغاری خاندان کو شکست دینے والی پی ٹی آئی کی زرتاج گل دراصل کون ہیں؟ وہ باتیں ...
لغاری خاندان کو شکست دینے والی پی ٹی آئی کی زرتاج گل دراصل کون ہیں؟ وہ باتیں جو آپ کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)ز رتاج گل اخوند میں کچھ تو خاص بات ہے کیوں کہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کے طاقتور لغاری خاندان کو شکست دینا کوئی آسان کام تو نہیں۔شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے والدین کی 34 سالہ بیٹی نے اپنی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور پھر تحریک انصاف میں بطور رضاکار شمولیت اختیار کی۔

انجینئر گل شیر خان ان کے والدہیں، ان کے آباﺅاجداد انگریز کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے نانا ایوب خان ایک قبائلی جنگجو تھے اور زرتاج گل نے ابتدائی تعلیم کے پی کے سے حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے لاہور آگئیں۔ انہوں نے کوئن میری کالج سے سکینڈری تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ وہ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس خاندان میں ان کے بہن بھائیوں سمیت بہت سے افراد نے پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔

زرتاج گل نے 1997ءمیں زمانہ طالب علمی میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا اور جلد ہی تحریک انصاف میں متحرک کارکن کے طور پر جانی گئیں۔ 2005ءمیں شوکت خانم کینسرہسپتال سے منسلک ہوگئیں انہوں نے ایک رضاکار کے طو رپر ایک ہسپتال میں خود کو انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردیا ۔ زرتاج گل کا نام 2013ءکے انتخابات میں اس وقت نمایاں ہوا جب وہ این اے 172جو موجودہ این اے 191 ہے اس سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی امیدوار تھیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی طویل وابستگی ہے اور عمران خان کے دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور کنونشنز میں بھی بھرپور طریقے سے حصہ لیتی رہی ہیں۔ ان کے شوہر اخوند ہمایوں بھی سیاست میں فعال ہیں۔ اس مرتبہ بھی زرتاج گل قومی اسمبلی کی امیدوار تھیں اور وہ کامیاب ٹھہریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے سیاست شروع کی تو اس علاقے کے لوگوں کا خیال تھا کہ میں مایوس ہوکر اور حوصلہ ہار کر یہ سیاست چھوڑ دوں گی۔ زرتاج گل نے یہ بھی کہا کہ ڈیرہ غازی خان جیسے شہر میں جو پسماندہ ہے اور جہاں سرداری نظام بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے الیکشن لڑنا کوئی عام بات نہیں تھی، او رپھر کسی خاتون کا الیکشن میں آنا او رمخصوص نشست کی بجائے عام نشست پر آنا یہ تو بالکل بھی عام بات نہیں تھی۔ میری پارٹی نے مجھے حوصلہ دیا اور مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے خوشی ہے کہ میں اس اعتماد پر پورا اتری۔زرتاج گل نے یہ بھی کہا کہ سیاسی سفر میں مجھے اپنے خاوند کی بھرپور حمایت حاصل ہے وہ پچھلے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 244 سے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔

جیونیوز کے مطابق شادی کے بعد وہ اور ان کے شوہر عمران خان کے وژن کے حامی ہوگئے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 2013 میں ڈی جی خان سے الیکشن لڑا تاہم ہار گئیں۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے 42 خواتین کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا۔ گل ان ہی میں سے تھیں تاہم اس مرتبہ وہ جیت کے لیے پہلے سے بھی زیادہ پرعزم تھیں۔25 جولائی کو قومی اسمبلی کی نشست این اے 191 (ڈیرہ غازی خان) سے زرتاج گل ن لیگ کے صفدر اویس خان لغاری کے مقابلے میں 25 ہزار زیادہ ووٹ لیکر فاتح قرار پائیں۔ ان کے علاوہ پی ٹی آئی سے قومی اسمبلی کی نشست پر صرف غلام بی بی بھروانہ ہی کامیاب ہوئی ہیں۔

اس فتح کی متاثر کن بات یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر توانائی اویس خان لغاری اس حلقے سے تین مرتبہ کامیاب رہ چکے تھے۔ ان کے والد فاروق لغاری صدر پاکستان تھے۔زرتاج گل کو ابتداء سے ہی اندازہ تھا کہ اس حلقے سے ان کے لیے کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا جو مختلف قبیلوں کے درمیان بٹا ہوا ہے۔

1970 میں این اے 191 میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نظیر احمد کامیاب ہوئے تھے تاہم اس کے بعد سے اس حلقے سے ہمیشہ لغاری خاندان ہی کامیاب ہوتا رہا ہے.

اس الیکشن میں حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 80 ہزار تھی جن میں 44 فیصد خواتین تھیں۔ زیادہ تر خواتین اور حلقے کے شہری علاقوں نے زرتاج گل کو ووٹ دیا جنہوں نے زبردست انتخابی مہم چلائی تھی۔ انہوں نے گھر گھر جاکر ترقی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے ان کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔دوسری جانب اویس لغاری کو گزشتہ پانچ سال حلقے میں نہ آنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید :

سیاست -