’جیل میں نوازشریف کے سیل کے اردگرد پانچ سیلز کو خالی کرالیاگیا کیونکہ ۔ ۔ ۔‘اڈیالہ جیل سے بڑی خبرآگئی

’جیل میں نوازشریف کے سیل کے اردگرد پانچ سیلز کو خالی کرالیاگیا کیونکہ ۔ ۔ ...
’جیل میں نوازشریف کے سیل کے اردگرد پانچ سیلز کو خالی کرالیاگیا کیونکہ ۔ ۔ ۔‘اڈیالہ جیل سے بڑی خبرآگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نوازشریف اڈیالہ جیل میں قید ہیں جہاں انہیں مشقتی سے بھی غیرضرورت بات کرنے کی ا جازت نہیں، ان کے سیل کے اردگرد موجود پانچ دیگر سیلز بھی خالی رکھے گئے ہیں تاکہ کوئی قید ی نہ نوازشریف سے بات کرسکے اور نہ دیکھ سکے، عملی طورپر نوازشریف قید تنہائی میں ہیں۔
روزنامہ جنگ میں اعزاز سید نے لکھاکہ ”نوازشریف اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ایک ایسے چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں جس میں بمشکل ایک بستر اور کرسی رکھنے کی جگہ ہے۔ کمرے میں ایک ٹی وی دیا گیا ہے جس پر صرف پی ٹی وی کی نشریات آتی ہیں۔ یہ سرکاری نشریات بذات خود ایک الگ سزا ہیں۔ مگر یہ سزا میں نہیں سہولت میں شمار کی جاتی ہیں۔ انہیں پڑھنے کیلئے ایک اخبار اور کام کاج کیلئے ایک قیدی جسے جیل کی زبان میں مشقتی کہتے ہیں، دیا گیا ہے مگر اسے غیرضروری بات کرنیکی اجازت نہیں۔ جس سیل میں نوازشریف ہیں اسکے اردگرد موجود کم ازکم دیگر پانچ سیلز کو خالی رکھا گیا ہے تاکہ اردگرد کے قیدی بھی سابق وزیراعظم کو دیکھ سکیں نہ ان سے بات کرسکیں۔
عملی طور پر نوازشریف قید تنہائی میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انیس سو چھیاسی میں انکی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دنوں میںتعمیر ہونیوالی اڈیالہ جیل راولپنڈی کی اس عمارت میں کبھی وہ خود بھی قیدی بن کر آئینگے۔ راولپنڈی اور راولپنڈی کی جیل دونوں ہمارے سابق وزرائے اعظم کیلئے کبھی اچھی خبر نہیں لائے۔ یہ شہر کروڑوں ووٹ لیکر اقتدار میں آنیوالے وزرائے اعظم کو توہین آمیز طریقے سے نکالنے کیلئے سازشوں میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ اس شہر میں دو سابق وزرائےاعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو قتل ہوئے اور یہاں کی جیل ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا ہار بھی پہنا چکی۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو اپنی آغوش میں رکھ چکی۔ ویسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اسی جیل میں رہ چکے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے رہنما کی حیثیت میں۔ شاید یہ جیل کی قربانی ہی تھی جو گیلانی کو وزارت عظمیٰ تک لے گئی۔ سپریم کورٹ میں سزائے موت کے جن قیدیوں کی اپیلیں زیر سماعت ہوتی ہیں اور انکی زندگی اور موت کے فیصلے حتمی مراحل میں ہوتے ہیں۔ انکی ملاقات کیلئے جیل حکام نے جمعرات کا دن مقرر کررکھا ہے چونکہ نوازشریف کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی طویل ہوتی ہے اسلئے ان کیلئے بھی جمعرات کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ اس روز صبح تقریباََ ساڑھے دس سے تین بجے تک ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتاہے۔جمعرات دو اگست کو نوازشریف کریم رنگ کی شلوار قمیض میں جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفترسے سے ملحق ایک کمرے میں موجود تھے۔ آج وہ روایتی واسکٹ کے بغیر تھے اورگرمی کی وجہ سے پسینہ بھی بار بار پونچھ رہے تھے۔ وزن پہلے کی بہ نسبت کم نظر آرہا تھا، مگر پراعتماد دکھ رہے تھے۔
نشست کچھ اس طرح تھی کہ داخلی دروازے کی دائیں جانب سامنے کی دیوار کیساتھ دو نشستیں رکھی تھیں۔ جنکے دائیں اور بائیں جانب کرسیوں کی دو دو قطاریں لگی ہوئی تھیں جن پر ملاقاتی براجمان ہوتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہوں۔ فرق یہ کہ درمیان میں لمبی میز نہیں۔ نوازشریف کمرے میں داخل ہونے کے بعد ملاقاتیوں سے فرداََ فرداََ ملتے اور اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی دائیں جانب جیل کی کھڑکی ہے جس پر لوہے کی آہنی سلاخیں اور جالی لگی ہوئی ہے۔ کھڑکی سےجیل کے اندر کی راہداری نظر آتی ہے جبکہ نوازشریف اپنے بائیں جانب کھڑکی کو دیکھیں تو جیل کی راہداری اور اس کے بعد ایک جالی جو باہر کی آزاد فضا کا منظر پیش کرتی ہے۔ چھت پر دو پنکھے ہیں اے۔ سی کا کوئی انتظام نہیں۔ تمام قیدی اپنے پیاروں سے اس سے بھی بدتر ماحول میں ملتے ہیں‘۔