بابر کا المیہ

انسانی وجود خواہشات کا ایک تپتا ہوا صحرا ہے ۔ یہ صحرا اپنی سیرابی چاہتا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر یہ دنیا دشتِ انساں کو سیرابی سے روشناس توکراتی ہے ، مگر تسکین کی منزل تک کبھی نہیں پہنچنے دیتی۔ یہاں خوشبو کی مہک، ذائقے کی لذت اور سریلے نغموں کی موسیقیت جیسی ان گنت نعمتیں لطف و راحت کا خوانِ لذت تو ضرور بچھاتی ہیں ، مگر موت، بیماری، بڑ ھاپا، محدودیت اور بوریت کی بنا پر انسان اس خوانِنعمت سے ہمیشہ بھوکا پیاسا اور محروم ہی اٹھتا ہے ۔
فاتح ہند، بانی سلطنت مغلیہ ؛ظہیر الدین بابر کی زندگی اس انسانی المیے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بابر 1483 میں پیدا ہوا اور اپنے باپ کے بعد صرف 12 برس کی عمر میں فرغانہ (موجودہ ازبکستان) کا حکمران بنا۔ مگر جلد ہی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ زندگی کی اگلی تین دہائیاں اس نے وسط ایشیا اور افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے مسلسل جنگ و جدل میں گزاریں ۔ 1526 میں ابراہیم کو پانی پت کی جنگ میں شکست دے کر ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم کیا اور یوں 43 برس کی عمر میں اسے وہ موقع میسر آ گیا کہ اس عظیم سلطنت کے حکمران کی حیثیت سے عیش و عشرت کی زندگی گزارے ۔ مگر بدقسمتی سے صرف 47 برس کی عمر میں بیماری سے انتقال کرگیا۔ حالانکہ وہ جسمانی طور پر اتنا طاقتور تھا کہ دو آدمیوں کو کندھوں پر اٹھائے پہاڑ پر چڑ ھ جایا کرتا تھا۔
بابر کا المیہ ہر انسان کا المیہ ہے ۔ انسان فاتح عالم ہی کیوں نہ ہو اس دنیا میں خواہشات کی تسکین نہیں پا سکتا۔ یہ چیز صرف فردوس کی اُس بستی میں ممکن ہے جہاں موت، بیماری، غم و الم، محدودیت اور بوریت جیسی سب چیزیں ختم کر دی جائیں گی۔ یہ فردوس ہر باشعور انسان کا مقصود ہونا چاہیے ۔ کیونکہ یہی انسان کی ہر خواہش کی ابدی تسکین کا واحد ممکنہ ذریعہ ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔