اڈیالہ جیل کس نے بنائی؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

اڈیالہ جیل کس نے بنائی؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں
اڈیالہ جیل کس نے بنائی؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی صاحبزادی اور داماد سمیت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ایسے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ جیل اس وقت بنائی گئی تھی جب نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ، ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگی ،عام قیدیوں کی طرح اب نوازشریف بھی اسی جیل میں اسیر ہیں۔
روزنامہ جنگ میں اعزازسید نے لکھاکہ ’نوازشریف اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ایک ایسے چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں جس میں بمشکل ایک بستر اور کرسی رکھنے کی جگہ ہے۔ کمرے میں ایک ٹی وی دیا گیا ہے۔ جس پر صرف پی ٹی وی کی نشریات ا?تی ہیں۔ یہ سرکاری نشریات بذات خود ایک الگ سزا ہیں۔ مگر یہ سزا میں نہیں سہولت میں شمار کی جاتی ہیں۔ انہیں پڑھنے کیلئے ایک اخبار اور کام کاج کیلئے ایک قیدی جسے جیل کی زبان میں مشقتی کہتے ہیں، دیا گیا ہے مگر اسے غیرضروری بات کرنیکی اجازت نہیں۔ جس سیل میں نوازشریف ہیں اسکے اردگرد موجود کم ازکم دیگر پانچ سیلز کو خالی رکھا گیا ہے تاکہ اردگرد کے قیدی بھی سابق وزیراعظم کو دیکھ سکیں نہ ان سے بات کرسکیں۔ عملی طور پر نوازشریف قید تنہائی میں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انیس سو چھیاسی میں انکی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دنوں میںتعمیر ہونیوالی اڈیالہ جیل راولپنڈی کی اس عمارت میں کبھی وہ خود بھی قیدی بن کر آئینگے۔ راولپنڈی اور راولپنڈی کی جیل دونوں ہمارے سابق وزرائے اعظم کیلئے کبھی اچھی خبر نہیں لائے۔ یہ شہر کروڑوں ووٹ لیکر اقتدار میں آنیوالے وزرائے اعظم کو توہین آمیز طریقے سے نکالنے کیلئے سازشوں میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ اس شہر میں دو سابق وزرائےاعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو قتل ہوئے اور یہاں کی جیل ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا ہار بھی پہنا چکی۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی دو سابق وزرائےاعظم بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو اپنی آغوش میں رکھ چکی۔ ویسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اسی جیل میں رہ چکے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے رہنما کی حیثیت میں۔ شاید یہ جیل کی قربانی ہی تھی جو گیلانی کو وزارت عظمیٰ تک لے گئی۔ سپریم کورٹ میں سزائے موت کے جن قیدیوں کی اپیلیں زیر سماعت ہوتی ہیں اور انکی زندگی اور موت کے فیصلے حتمی مراحل میں ہوتے ہیں۔ انکی ملاقات کیلئے جیل حکام نے جمعرات کا دن مقرر کررکھا ہے چونکہ نوازشریف کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی طویل ہوتی ہے اسلئے ان کیلئے بھی جمعرات کا دن مقرر کیا گیا ہے‘۔