رئیل اسٹیٹ؟
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار پوری دنیا میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور کروڑوں افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کئی برس سے یہ بزنس ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ لاکھوں لوگ اس سے جڑے ہوئے ہیں، مگر کچھ عرصے سے رئیل اسٹیٹ کی دلکشی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایک تو بیسیوں محکمہ جات سے این او سی لینا پڑتا ہے اور کلیدی عہدوں پر بیٹھے ”افراد“ مختلف حیلے بہانوں سے نچوڑ کھاتے ہیں۔ دوسرا اس شعبہ میں اب ٹیکسز کی بہار آ گئی ہے، جس کے سبب چہار سو مایوسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پہلے لوگ اس طرف آ رہے تھے، اب تیز رفتاری سے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس طرح بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور سرمایہ کاری میں کافی سے زیادہ کمی واقع ہو رہی ہے!
وطن عزیز میں انویسٹرز مدت سے سہمے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک میں آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے تو آباد کاری کا نظام کیوں بیٹھ رہا ہے؟ اس طرح تو سارا نظام ہی ٹھپ ہو جائے گا۔سر چھپانے کے لئے ایک چھوٹا سا گھر ہر آدمی کی بنیادی ضرورت ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متعلقہ لوگوں کو اس سلسلے میں سہولتیں مہیا کی جائیں، مگریہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، الٹا انویسٹرز کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ایک بات بہر طور اہم ہے کہ برسات کا موسم آیا تو انتظامیہ کے ساتھ شہروں کی بھی قلعی کھل گئی، سب کچھ ڈوب گیا۔
بڑی بڑی سوسائٹیز میں کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ لاہور میں فیروز پور روڈ پر پاک عرب اسکیم کے علاوہ ہر جگہ پانی میں ڈوبی دیکھی۔ یہ اسکیم کیوں بچ نکلی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بانی نامور سیاست دان سابق سینیٹر گلزار احمد خان مرحوم اور اب ان کے صاحبزادگان، جو سینیٹرز بھی رہ چکے ہیں۔
عمار خان اور وقار خان نے اسے محض کاروبار کے طور پر نہیں لیا۔ زین خان بجائے خود اس کی ترقی و بہتری میں اپنا خاموش حصہ ڈالتے چلے آتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ رئیل اسٹیٹ میں رعایات و سہولیات کا اعلان و انتظام ہونا چاہیے، تاکہ اس کاروبار کو فروغ ہو اور لوگوں کو روزگار ملے، تاہم یہ ضروری ہے کہ معیار کے لئے بھی چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے، جس کی ایک چھوٹی سی مثال پاک عرب سوسائٹی ہے۔