"تربیت معاشرہ وقت کی اشد ضرورت ہے"
ہمارا معاشرہ طبقات اور گروہوں میں اس قدر بَٹ چکا ہے کہ کسی ظلم و بربریت پر بھی یکجا ہو کر اس کی مذمت کرنے، ظالم کے ظلم کی بغیر کسی تفریق کے مخالفت کرنے اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتا.گھناؤنے سے گھناؤنا جرم کرنے والا بھی اگر کسی نا کسی طرح ہمارے ساتھ کوئی واسطہ رکھتا ہے تو ہم لوگ اس کے لیے سینکڑوں دلیلیں اور ہزار تاویلیں نکال لاتے ہیں.
اللہ پاک نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ ﷺنے اس عدل و انصاف کو رائج کرکے دکھایا ہے تاکہ ہم اس سے سیکھ سکیں. رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے متعلق فرمایا کہ اگر میری بیٹی بھی کوئی جرم کرے گی تو میں اس کوبھی سزا دونگا اور ساتھ تاریخ انسانیت کا سبق بھی سنادیا کہ سنو لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوگئی تھیں کہ وہ کمزور کو جرم کرنے پر سزا دیتی تھیں جبکہ طاقتور کو چھوڑ دیتی تھیں.۔۔۔
کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ آج جو ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ عدل کے نایاب ہونے کا ہے . یہاں کسی غریب سے اشارے کی پابندی نا ہو تو پوری کی پوری ریاست اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پہنچ جاتی ہے اور اس کو تادم مرگ اس بات کی سزا دی جاتی ہے جبکہ اگر کوئی طاقتور جرم کرتا ہے تو اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے بھی اور قانون کی تشریح کرنے والے بھی ایسی ایسی راہیں نکالتے ہیں کہ وہ خود بھی اس نظام پر قہقہے بلند کرتا ہے.
یہاں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں کرنے والوں کے جرم پر یہ دیکھ اور سوچ کر لب کشائی کی جرات کی جاتی ہے کہ اس کا تعلق کس طبقے سے ہے. اگر مجرم مخالف طبقے کا ہو تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے اور اگر جرم کرنے والا خوش قسمتی سے اپنے ہی طبقے سے نکل آئے تو اس کے لیے ہر قسم کی دلیلیں اور تاویلیں گھڑ لی جاتی ہیں. ہر ایسے انسانیت سوز اور دردناک واقعے کے بعد دو طبقے آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں. ایک مذہبی کہلوانے والا طبقہ اور دوسرا سیکولر اور لبرل کہلوانے والا. ان کی اس لڑائی کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ اس واقعے کے تم ذمہ دار ہو. جرم کرنے والے کا تعلق اگر بظاہر مذہبی ہو تو دھماچوکڑی مچائی جاتی ہے کہ دیکھیں سارے جرائم اور گناہوں کے مرتکب تو یہ مذہبی ہیں، اس لیے ان سے چھٹکارا پالو اور اس بہانے سے مذہب کو بھی خوب جی بھر کر لتاڑا جاتا ہے. جرم کرنے والے کا تعلق لبرلز اور سیکولر سے نکل آئے تو اسی کو آڑ بنا کر ایسی کچھ لوگ اپنا چورن بیچنے نکل پڑتے ہیں.
ہم اپنی طبقاتی تقسیم میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ظالم انسان کا تعلق کسی بھی ذات مذہب یا گروہ سے ہو وہ سب سے پہلے ظالم ہے اور اس کی شناخت یہی ہے. کسی مدرسے میں ایسا جرم ہوجائے تو ایک طبقہ ایسا ہمدرد اور انسانی حقوق کا علمبردار بن کر سامنے آتا ہے کہ ان پر فدا ہونے کو دل چاہتا ہے لیکن اگر یہی ظلم اس کے بھی کئی گنا زیادہ ظالمانہ طریقے سے کسی یونیورسٹی میں یا کسی آزاد خیال لبرل قسم کے بندے سے ہوجائے تو ان کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں.۔۔۔
لاہور مدرسے میں ہونے والے واقعے کے بعد اسلام آباد کی یونیورسٹی میں ایک بچے کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اس کو انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کو آخری وقت تک دبانے کہ کوشش کی.۔۔۔ اس معاملہ پر انصاف کی صدا بلند کرنے پر پروفیسر مشتاق صاحب کو یونیورسٹی سے فارغ کردیا گیا ہے۔۔. انتہائی گھٹیا اور مکروہ فعل ہے کہ جرم کو چھپانے کے لیے یونیورسٹی کا عملہ خود پیش پیش ہے اور آواز اٹھانے والے کو نشان عبرت بنانا چاہتا ہے تاکہ کل کو کوئی لب کشائی کی جرات ہی نا کرسکے.۔۔ اس پر سخت ترین ایکشن لے کر الٹا ان لوگوں کو نشان عبرت بنا دینا چاہئے جو حق اور انصاف کی آواز اٹھانے والوں کو برداشت نہیں کرسکتے.۔۔۔ اسلام آباد ہی میں ایک سرکاری افسر نے دور دراز کے کسی علاقے کے لڑکی کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلایا اور ساری رات اس کے ساتھ زیادتی کرتا رہا ، صبح کو اسے بے یار و مددگار کہیں چھوڑ گیا.
اسی اسلام آباد میں ایک شخص نے اپنی کسی دوست کو بلایا اور کسی لفنگے دوست سے فلیٹ کرایہ پر حاصل کیا ،پھر ان بدقماشوں نے اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد ویڈیوز بنالیں اور لاکھوں روپے ان سے بٹورتے رہے ۔۔۔مزید اس لڑکی کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کردیا گیا.۔۔عید کے ایک روز قبل قیامت ڈھائی گئی مگر یہ خبر عید کی خوشیوں اور مصروفیات میں گھم ہوگئی۔۔.
اسلام آباد کے انتہائی پوش علاقے میں انتہائی ماڈرن آزاد خیال لڑکی کو جس طرح ذبح کیا گیا پوری انسانیت شرما گئی.افسوس تو یہ ہےکہ اس ظلم و بربریت پر"میرا جسم میری مرضی" اور موم بتی مافیا جو حقوقِ نسواں کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ مکمل خاموش نظر آئے کیونکہ اس جرم کا سامان وہی بنا جس کو وہ بطور حل پیش کرتے ہیں.
جو لوگ عورت کو رشتوں کے چنگل سے نکال کر اس کو اس کی مرضی کا نام دے کر ان بھیڑیوں اور درندوں کے درمیان لا پھینکنا چاہتے ہیں وہ کبھی اس عورت کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے. اسلام عورت کو اپنی مرضی اور پسند کے مرد سے شادی کی اجازت دیتا ہے اور پھر اس رشتے کے لیے دو گواہ، دو خاندان اور ایک ریاست کو ضامن ٹھہراتا ہے مگر جو لوگ عورت کو ان تمام محفوظ، اعلانیہ اور ذمہ دارانہ رشتوں کے حصار سے نکال کر اس کو معاشرے کے بگڑے اور آوارہ مزاج بدقماشوں کی دسترس میں دینا چاہتے ہیں مجھے تو وہ لوگ اس عورت سے سب سے بڑے دشمن لگتے ہیں.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔