مدینے میں زندگی کے بہترین لمحات گزرے تھے، رخصتی پر جس شدت سے دل نے اداس ہونا تھا اس صدمے سے بچنے کیلیے  اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا

 مدینے میں زندگی کے بہترین لمحات گزرے تھے، رخصتی پر جس شدت سے دل نے اداس ہونا ...
 مدینے میں زندگی کے بہترین لمحات گزرے تھے، رخصتی پر جس شدت سے دل نے اداس ہونا تھا اس صدمے سے بچنے کیلیے  اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:351
زیارتوں کے لیے ایک دن مختص کیا تھا، چونکہ سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران ساری مقدس زیارتیں متعدد بارکر چکے تھے اس لیے ساتھ جانے والے پاکستانی ڈرائیور کو کسی چیز کی بھی وضاحت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جہاں ضروری ہوا نوافل ادا کیے، ورنہ کچھ علاقوں کو تو دور سے ہی دیکھ کر واپس آ گئے۔
مدینے میں زندگی کے بہترین لمحات گزرے تھے، وہاں سے رخصتی پر جس شدت سے دل نے اداس ہونا تھا اس صدمے سے بچنے کے لیے ذہنی اور جذباتی طور پر اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا۔پھر ایک صبح فجر کی اذان کے ساتھ ہی وطن واپسی کا سفر شروع ہوا۔ فلائٹ سیدھی لاہور کی تھی۔
میں نے سعودی عرب آتے وقت دعا کی تھی کہ کوئی ایسا سلسلہ بن جائے کہ میں ایک دفعہ پھر ریاض کی دھرتی پر اپنے قدم رکھ سکوں جہاں زندگی کا ایک بڑا اور بہترین حصہ گزرا تھا۔ جدہ آتے وقت بھی جہاز کچھ دیر کے لیے ریاض ٹھہرا توتھا، لیکن خواہش کے باوجود ہمیں نیچے اترنے کی اجازت نہیں ملی تھی اور ہم جہاز میں ہی بیٹھے کھڑکیوں سے ریاض ایئر پورٹ کی جانی پہچانی عمارتوں کو حسرت سے دیکھتے رہے تھے۔ یہ وہی ایئرپورٹ تھا جہاں سے بیسیوں بار ہم نے دنیا بھر کی اڑانیں بھری تھیں۔
مدینے سے واپسی پر بھی ایسا ہی ہونا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں، میرے پیارے نبی ﷺ نے جب ہمیں اپنے دیس سے روانہ کیا تو کیسے ممکن تھا کہ آپﷺ ہماری اس ادنیٰ سی خواہش کی تکمیل نہ کرتے۔ ریاض میں جہاز اپنے شیڈول کے مطابق اترا اور اسے وہاں تقریباً ایک گھنٹہ قیام کے دوران مدینے سے ریاض آنے والے مسافر اتارنے تھے اور پھر وہاں سے لاہور جانے کے منتظر مسافروں کو اٹھانا تھا۔ ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا مگر جہاز نے پرواز نہ بھری اور وہیں ساکت کھڑا رہا۔ تھوڑی تشویش ہوئی، پھر ایک دم سپیکر کھڑکھڑایا اور ہمیں بتایا گیا کہ کسی فنی خرابی کی بناء پر یہ جہاز اب لاہور نہیں جا پائے گا، اس لیے دوسرے جہاز کا انتظام کیا جا رہا ہے، تب تک سارے مسافر ریاض ایئرپورٹ کی عمارت میں جا کر تشریف رکھیں۔
 ہمیں اور کیا چاہئے تھا، چھلانگیں مارتے باہر نکل گئے اور فوراً ہی ایئرپورٹ میں داخل ہو کر خوشی اور بے چینی سے ایک ایک حصے کو کھنگال مارا، جب تھک گئے تو چائے منگوائی اور شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں کے پاس بیٹھ کر باہر کا نظارہ کرنے لگے، یہاں سے صرف پچیس تیس کلومیٹر کے فاصلے پر میرے بے شمار دوست اب بھی موجود تھے جن کو اگر میں ایک سیٹی مارتا تو وہ ہمیں ملنے دوڑے چلے آتے۔ لیکن مجھے علم تھا کہ اب ایسا ہونا نا ممکن ہے۔
نئے جہاز نے ایک دفعہ پھر سب لوگوں کو اپنی آغوش میں سمویا اور دور اپنے دیس کی طرف پرواز شروع کر دی۔جب لاہور ایئر پورٹ پر اترے تو شام کا اندھیرا پھیل گیا تھا، اور کہیں کہیں مدھم جلتی بجھتی روشنیاں بڑی بھلی لگ رہی تھیں۔ رنگ و نور سے نہائی ہوئی بستیوں سے ہم اپنی دنیا میں لوٹ آئے تھے، جہاں رات کو سٹریٹ لائٹ بھی نہیں روشن کی جاتی تھی کہ میرے دیس میں بجلی کی شدید قلت تھی۔
امیگریشن اور کسٹم سے فارغ ہو کر جب باہر آئے تو رات اپنا دامن پھیلائے آ پہنچی تھی۔ میرا بھائی خالد اور ہمارا ملازم رمضان اور اس کے بچے باہر موجود تھے جنہوں نے ہمارا شاندار استقبال کیا۔ گھر پہنچ کر جہاں کچھ سکون ہوا وہاں پیچھے رہ جانے والے خوبصورت اور مقدس یادوں کو سمیٹنے میں بڑا وقت لگا۔ بس یہی دعا نکلتی رہی کہ اے میرے رب ہمارے اس سفر کو ارض مقدس کا آخری سفر نہ بنانا۔ منہ سے کچھ نہیں کہتے تھے، لیکن حقیقت یہی تھی کہ کوئی دن بھی ایسا نہ گزرتا تھا جب تنہائی کے لمحات میں ہم اچھے دنوں کی ان حسین یادوں کو دل سے نکال سکے ہوں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -