ہم دہلی ائیرپورٹ پر اترے اور کوچ کے ذریعے علی گڑھ یونیورسٹی کیلیے روانہ ہوئے،میرا ذہن ماضی میں سفر کرتا ہوا شیر شاہ سوری کے دور میں پہنچ گیا

 ہم دہلی ائیرپورٹ پر اترے اور کوچ کے ذریعے علی گڑھ یونیورسٹی کیلیے روانہ ...
 ہم دہلی ائیرپورٹ پر اترے اور کوچ کے ذریعے علی گڑھ یونیورسٹی کیلیے روانہ ہوئے،میرا ذہن ماضی میں سفر کرتا ہوا شیر شاہ سوری کے دور میں پہنچ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:182
 3 فروری 2005 ء کو ہمارے گروپ کے افراد لاہور ائیرپورٹ پرجمع ہوئے۔ یہ 15مختلف مگر دلچسپ لوگوں کا ایک خوبصورت گروہ تھا جس کی رہبری خود اقبال شفیع صاحب کر رہے تھے۔ وہ ایک انتہائی نفیس اور ملنسار انسان ہیں۔ وہیں لاہور ائیرپورٹ پر کھڑے کھڑے انھوں نے اپنے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے بارے میں بہت سی داستانیں سنا دیں۔ لاہور سے دہلی تک کا ہوائی سفر ایک گھنٹے سے بھی کم  وقت میں طے ہو جاتا ہے۔ ہم دہلی ائیرپورٹ پر اترے اور ایک کوچ کے ذریعے اپنی منزل یعنی علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ اُسی تاریخی جی ٹی روڈ پر کوئی 208 کلومیٹر کا سفر تھا جو پشاور سے شروع ہوتی ہے اور پاکستان اور بھارت کے کئی بڑے شہروں کو آپس میں ملاتی ہوئی کلکتہ جا کر ختم ہوجاتی ہے۔میرا ذہن کئی صدیاں پیچھے ماضی میں سفر کرتا ہوا شیر شاہ سوری کے دور میں پہنچ گیا جو صرف 5 سال تک ہندوستان پر حکمران رہا لیکن اس دوران اس نے عوام کی فلاح بہبود کے اتنے ترقیاتی کام کئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ جی ٹی روڈ بھی اسی کا دیا ہوا ایک تحفہ ہے۔ یہاں سڑک کی حالت کچھ اچھی نہیں تھا اور جا بجا اندھیرے میں ڈوبے ہوئے شہر اور قصبے اس بات کے غماز تھے کہ یہاں بجلی کمیاب ہے۔ بعد میں علی گڑھ جا کر اس بات کا عملی تجربہ ہوا کہ وہاں بجلی کی فراہمی کے حالات بے حد مخدوش ہیں اور یہاں روزانہ کی بنیاد پر اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ اس وقت بھارت ایسا چمکتا دمکتا ملک تو یقیناً نہیں لگتا تھا جیسا کہ باہر دنیا کو بتایا اور خصوصاً بالی ووڈ کی فلموں میں دکھایا جاتا تھا۔ 5گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم بالآخر نصف شب  کے وقت علی گڑھ پہنچ گئے۔ 
علی گڑھ میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے میرے ایک دوست ڈاکٹر زین الدین میرے منتظر تھے، اتنے طویل عرصے بعد ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ یہاں علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ہمارے قیام و طعام کا انتظام یونیورسٹی کے مہمان خانے ہی میں کیا گیا تھا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر کا  متبادل انتظام موجود تھا اس لیے ہمیں کوئی دقت نہ ہوئی اور جی بھر کے سوئے۔ 
اگلے دن ہم نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاقات کی، میں نے اُنھیں بتایا کہ میں پہلی دفعہ علی گڑھ آیا ہوں اور میرا یہاں قیام کوئی ہفتے بھر کا ہو گا تو کیا اس کے بعد میں بھی اپنے آپ کو علیگیرئین کہلوا سکوں گا۔ وہ مسکرائے اور کہا کیوں نہیں،بالکل ایسا ہی ہوگا۔ میرے ویزے پر تو ویسے بھی پہلے سے ہی علیگیر ئین لکھا ہوا ہے۔پھر ہم نے کیمپس کا دورہ کیا اور مختلف شعبہ جات دیکھے۔ اقبال شفیع  ہمارے رہبر ٹھہرے، وہ اس دوران علی گڑھ کی تاریخ کھنگالتے رہے اور بچپن کی تعلیم سے لے کر کیمپس کے مختلف حصوں کے قصے کہانیاں بیان کرتے رہے۔ انھوں نے ہمیں اپنا وہ گھر بھی دکھایا جہاں وہ پیدا ہوئے اور پھر گریجویشن تک وہیں مقیم رہے تھے۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -