پنجاب حکومت کی ساڑھے چارسالہ کارکردگی

پنجاب حکومت کی ساڑھے چارسالہ کارکردگی
پنجاب حکومت کی ساڑھے چارسالہ کارکردگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وطن عزیز بیش بہا قربانیوں کے بعد اسی مقصد کیلئے معرض وجود میں آیا تھاکہ یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا اور بلاتفریق ہر ایک کو انصاف ملے گا۔امانت ، دیانت کا راج ہوگا ،مظلوم کو انصاف جبکہ ظالم کو سزا ملے گی۔ قومی وسائل عوام کی امانت ہوں گے اور ایک ایک پائی شفاف طریقے سے ان کی فلاح و بہبود پر صرف ہوگی۔پاکستان کو بنے 65 سے زائد سال بیت چکے ہیں اور اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں مختلف داستانیں نظر آئیں گی۔ مختلف حکومتوں نے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کے بلند بانگ دعوے تو ضرورکئے لیکن حقائق مختلف رہے۔ چند ایک حکومتوں نے اس عرصے میں صنعتی، معاشرتی اور سماجی ترقی کیلئے مخلصانہ کوششیں بھی کیں تاہم اگر ان کا مو ازنہ اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ہندوستان سے کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ہمسایہ ملک نے ہر شعبہ میں ترقی کی اور جمہوریت کو فروغ دیاجبکہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا اور زیادہ عرصہ فوجی حکمران ہی برسراقتدار رہے۔اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام عالم میں انہی ملکوں نے ترقی کی جنہوں نے محنت اور جذبے کو اپنا شعار بنایا ۔چین ،جرمنی، ملائیشیا، جاپان، ترکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد پنجاب میںعوام نے حکومت کا مینڈیٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دیا جس نے گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران عوام کی خدمت اور صوبے کی ترقی کیلئے وہ اقدامات کئے جن کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ”میرٹ سو فیصد اور شفافیت طرہ امتیاز“ یہی پالیسی ہر شعبہ میں اپنائی گئی۔ ایک ایک پائی عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کی گئی اور ماضی کے برعکس ترقیاتی منصوبے بھی شفافیت اور معیار کی اپنی مثال آپ ہیںجبکہ گڈگورننس بھی اسی صوبے کا طرہ امتیاز ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کی بناءپر نہ صرف عوام بلکہ بین الاقوامی ادارے بھی پنجاب میں شفافیت اور گڈگورننس کے معترف ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جس نے گذشتہ دور حکومت کو کرپٹ ترین دور قرار دیا تھا اسی ادارے نے پنجاب حکومت کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں شفاف ترین حکومت قرار دیا ہے۔ برطانیہ کا ادارہ برائے عالمی ترقی ہو یا پھر ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور عالمی بنک‘ اکثر بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں پنجاب کو ایک ماڈل صوبہ قرار دیا ہے جہاں گورننس اور وسائل کی شرح تسلی بخش بلکہ بہت بہتر ہے اور اسی بناءپر یہ ادارے نہ صرف پنجاب حکومت سے تعاون بڑھانے کے خواہش مند ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں انہوں نے اپنی سرمایہ کاری بڑھائی ہے۔
پنجاب حکومت کی گذشتہ ساڑھے چار سالہ کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی بھی باشعور شہری اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ ترقی کیلئے جو کاوشیں اس دور میں ہوئیں ،عوامی فلاح کے جو منصوبے مکمل کئے گئے ، تعلیم، بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کا فروغ،طلباءکی حوصلہ افزائی ،صحت، زراعت، انفراسٹرکچرکے شعبوں میں جو ترقی ہوئی اس کی مثال 65سالہ تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف جن کا اوڑھنا بچھونا عوام کی خدمت ہے انہوں نے شب و روز اس خدمت میں صرف کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں خادم پنجاب ہیں جن کا ہر قدم عوام کی فلاح اور صوبے کی ترقی کیلئے ہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور بھی محال ہے۔انہی قوموں نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں جنہوں نے تعلیم کو فروغ دیا اور اپنی نئی نسل کو جدید علوم سے آراستہ کیا۔ تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے اسے اپنی اولین ترجیح بنایا اور اس کیلئے ایسے اقدامات کئے جس کا محوروہ غریب طالب علم ہے جو جدید سہولتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ایک ایسا انقلابی منصوبہ ہے جس سے اب نہ صرف پنجاب بلکہ دیگر صوبوں کے 40ہزار سے زائد طلباءو طالبات وظائف حاصل کر رہے ہیں۔ یہ فنڈ نہ صرف غریب طلباءکی علم کی پیاس بجھانے اور اس کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوا ہے بلکہ اسی فنڈ کی بناءپر آج یہ طالب علم لمز، نسٹ ، فاسٹ اور دیگر اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے اقدامات حکومت کے اس عزم کی عکاسی کرتے ہیں کہ جدید علوم کو فروغ دیئے بغیر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیاجاسکتا۔ آئی ٹی یونیورسٹی ہویا پھر صوبے کے چار ہزار سے زائد سکولوں میں آئی ٹی لیبارٹریوں کا قیام، ہونہار طلباءو طالبات میں سوفیصد میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ کی تقسیم ہویا پھر مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے کیلئے انٹرن شپ پروگرام، یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہوں نے پنجاب میں ترقی اور نئی نسل کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کیلئے نئی راہیں کھولی ہیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت یہی نعرہ بلند کیاگیا تھا کہ یہاں ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے لیکن پاکستان قائد اور اقبال کا پاکستان نہ بن سکا اور آج بھی تمام نعمتیں اشرافیہ کی دہلیز پر سلام کرتی ہیں جبکہ غریب اور عام آدمی ان نعمتوں سے قطعی محروم ہے۔ دانش سکول انہی محروم معیشت طبقات کیلئے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے جدید تعلیم کا تصور بھی نہیںکرسکتے۔ پاکستان میں اشرافیہ کیلئے تو گرامر اور دیگر معیاری سکول تو تعمیر کئے گئے لیکن ملک کے طول و عرض میں جواہر قابل خاک ہی چھانتے رہے۔ صوبے کے دور دراز علاقوںمیں جدید سہولتوں سے آراستہ دانش سکولوں کا قیام ایسے ہی طبقے کے بچوں کیلئے ہے جو پڑھنے کی تڑپ اور ملک کی ترقی کی خواہش تو رکھتے ہیںلیکن مالی وسائل کی بناءپر تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مستحق طلباءو طالبات کیلئے دانش سکول کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔یہ ادارے علم و دانش کے گہوارے اور غریب ترین طلباءو طالبات کی بہترین تعلیم و تربیت کیلئے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کا سہرا بھی وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کے سر ہے جنہوں نے دور دراز علاقوں کے غریب ترین طلباءو طالبات کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایاہے۔ آج ان سکولوں میں نہ صرف ماں باپ کی شفقت سے محروم طلباءو طالبات زیرتعلیم ہیں بلکہ بہترین تعلیمی سہولتوں نے ان بچوںکو وہ خود اعتمادی دی ہے اور ان کی صلاحیتوں کو وہ جلا بخشی ہے جس کی بناءپر ا ن کا مقابلہ ملک کی کسی بھی معیاری درس گاہ کے طلباءو طالبات سے کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہونہارطلباءو طالبات میں گذشتہ برس ایک لاکھ 25ہزار لیپ ٹاپ میرٹ کی بناءپر تقسیم کئے گئے اور امسال بھی دوبارہ ایک لاکھ سے زائد لیپ ٹاپ تقسیم کئے جا رہے ہیں۔حکومت نے طلباءکی فلاح و بہبود کے لئے تو انقلابی اقدامات کئے ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کئے گئے ہیں۔ یوتھ پالیسی کے تحت ہنر مند نوجوانوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے 3ارب روپے کے بلاسود قرضہ جات آسان شرائط پر فراہم کئے جا رہے ہیں جس سے 70ہزار نوجوانوں کوفائدہ پہنچے گا۔ یوتھ کونسل کا قیام ، ییلو کیب سکیم اور پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ پروگرام بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔صحت کے شعبے کیلئے جہاں مفت ادویات اور ڈائیلسز کی سہولت کو یقینی بنایا گیا ہے وہاں نئے ہسپتال بھی تعمیر کئے جا رہے ہیں اور عوام کو ان کی دہلیز پر جدید طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے پہلی مرتبہ موبائل یونٹس کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے جومو¿ثر طریقے سے دور دراز علاقوں میں پوری طرح متحرک ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم کے فروغ کیلئے ڈیرہ غازی خان، ساہیوال، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں چار نئے میڈیکل کالجز بھی تعمیر کئے گئے ہیںجبکہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد 70ہزار سے زائد اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں اور حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق پولیس میں بھی میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔تین ارب روپے کی لاگت سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی قائم کی گئی ہے جو جنوبی ایشیا کی جدید ترین اور دنیا کی دوسری بڑی فرانزک ایجنسی ہے۔یہ فرانزک ایجنسی جرائم کی بیخ کنی، مجرموں کوگرفت میں لانے، سراغرسانی ، فوری انصاف کی فراہمی اور سنگین مقدمات کی سائنسی خطوط پر تفتیش میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔اس ایجنسی میں بیرون ملک سے اعلیٰ تربیت یافتہ سائنسدانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔خادم پنجاب نے عوامی خواہشات اور ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے غریب طبقے کو اپنی چھت فراہم کرنے کیلئے آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم کا آغاز کیا جس کے تحت 20ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے بے گھر افراد گھر حاصل کرنے کے اہل ہیں۔آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم میں کل مکانات کا دس فیصد کوٹہ یتیموں، بیواﺅں، شہداءکے خاندانوںاور معذوروں کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ ان افراد کی ڈاﺅن پے منٹ حکومت پنجاب ادا کر رہی ہے۔اس سکیم میں کشادہ سڑکوں، ٹرانسپورٹ، کمیونٹی سنٹر، سیوریج سسٹم، پانی، بجلی، مسجد، کمرشل ایریا، ہیلتھ کلب، ہسپتال، سکول اور پارکوں کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
گذشتہ سال ہولناک اور بدترین سیلاب سے پنجاب کے کئی اضلاع شدید متاثر ہوئے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے اور 18لاکھ ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ خادم پنجاب کے اعلان کے مطابق سیلاب متاثرین کی بحالی اور انہیں بہترین معیار زندگی کی فراہمی کیلئے 22ماڈل ویلجز کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ ان ماڈل ویلجز میں متاثرین کو بذریعہ شفاف قرعہ اندازی گھروں کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے اور یہاںصاف پانی، سکول، ہیلتھ سنٹرز، پکی گلیاں، نکاسی آب ، پارکس، لائیوسٹاک شیڈز، ٹیوٹا ٹریننگ سنٹرز، شمسی توانائی، بائیوگیس، ویٹرنری ڈسپنسری، مارکیٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
لاہور میں شہریوں کو بین الاقوامی معیار کی جدید ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرنے کیلئے حکومت پنجاب نے ترکی کی معاونت سے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کا آغاز کر دیا ہے اور کاہنہ سے شاہدرہ تک 35کلومیٹر طویل منصوبے پر کام دن رات اور تیز رفتاری سے جاری ہے۔اس بس سروس کے بس سٹاپ مسافروں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کئے گئے ہیں اور معذوروں اور معمر مسافروں کیلئے لیول بورڈنگ کا بندوبست بھی کیاجائے گااور بس سٹاپوں پر صاف ستھرے بیت الخلا، پینے کے صاف پانی اور ہوا کیلئے پنکھوں کا انتظام کیا جائے گا۔بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کی تکمیل سے عوام کو ٹرانسپورٹ کی تیزرفتار اور جدید سہولتیں میسر آئیں گی۔ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کا ٹریک رواں سال میں مکمل ہوجائے گا۔پاکستان میں پہلی مرتبہ آئی ٹی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا ہے اور خواتین کیلئے بھی 4یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔جناح آبادی کا منصوبہ ہو یا گرین ٹریکٹر کی فراہمی جس پر 2لاکھ فی ٹریکٹر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کے ملک کی ترقی و خوشحالی    پر دور رس نتائج برآمد ہورہے ہیں۔یوتھ فیسٹیول کا انعقاد بھی ایک اور انقلابی اقدام ہے جس کے دوران نہ صرف 11عالمی ریکارڈ قائم کئے گئے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن ہوا۔
حکومت پنجاب نے گذشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران اپنے عملی اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ وسائل عوام کی امانت ہیں اور صوبے کے تمام علاقوں کی یکساں ترقی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑا گیا اور جنوبی پنجاب میں وہ ریکارڈ ترقیاتی کام کئے گئے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
گذشتہ برس ڈینگی کی ناگہانی آفت نے صوبے بالخصوص لاہور کو ہلا کر رکھ دیا تھا، قیمتی جانیں اس مہلک بیماری کی بھینٹ چڑھیں۔ ڈینگی کے حوالے سے علم اور علاج کیلئے ہنگامی طور پر بیرون ملک سے ماہرین کو بلایاگیااور اس مرض کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے گئے۔ڈینگی نے جہاں بھی اپنے پنجے گاڑے وہاں کئی دہائیوں تک موجود رہا۔ تھائی لینڈ، سری لنکا،انڈونیشیا اور دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں لیکن پنجاب کے عوام اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہیں جس کی رحمت اور ڈاکٹروں ،نرسوں اور حکومت کی شب و روز کاوشوں کی بناءپرایک سال میں اس وباءپر قابو پایا گیا اور آج اللہ کا شکر ہے کہ امسال اس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی بلکہ گذشتہ سال ڈینگی سے متاثرہ 20ہزار سے زائد کیسز کے مقابلے میں امسال صرف ڈھائی سو کے قریب افراد اس سے متاثر ہوئے تاہم علاج معالجہ کی بہترین سہولتوں کی بناءپر یہ سب بھی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔
یوں اگر ہم گزشتہ چار ساڑھے چار برسوں کی پنجاب حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے اور ہم اسے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ عوامی خدمات کی تکمیل کرنے والی حکومت قرار دے سکتے ہیں۔    ٭

مزید :

کالم -