کامیابی
سیٹھ صاحب مجھے فون پر ہی اپنی کامیابی کی کہانی سناناچاہتے تھے، جبکہ مَیں شادی کی تقریب میں تھا۔ مَیں نے انہیں کہا کہ آپ مجھے یہ سب تفصیل ای میل کردیں تو انہوں نے کہا کہ میری کامیابی ای میل ایڈریس نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی کامیابی کا راز بتانا شروع کیا اور مَیں مبہوت ہوکر ان کی کہانی سننے لگا۔ ان کا سبزیوں اور پھلوں کی فروخت کا بہت بڑا بزنس ہے۔ انہوں نے اس کاروبار کا آغاز آج سے چودہ سال پہلے ایک ہزارروپے سے کیا اور آج ان کا کاروبار کروڑوں میں ہے، مگر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات وہ راز ہے، جس کے ذریعے وہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہی گئے اور ایک معمولی آدمی سے صاحب ثروت ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ 1999ءمیں مَیں نے ایف اے پاس کیا تو گھر کے حالات ایسے تھے کہ مزید پڑھنا مشکل تھا، سو مَیں نے سوچا کہ کوئی نوکری کرلیتا ہوں اور ساتھ بطور پرائیویٹ امیدوار اپنی تعلیم جاری رکھتا ہوں۔ مَیں نے اخبارات میں نوکری کے اشتہارات دیکھ کر اپلائی کرنا شروع کر دیا، مگر کہیں سے کال نہ آئی۔ آخر مَیں نے نچلے درجے کی آسامیوں پر قسمت آزمانی شروع کردی لاہور کی ایک سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی نے مجھے آفس بوائے کے لئے انٹرویو کال دی۔ یہ ایک معمولی نوکری تھی جس کے لئے معمولی پڑھا لکھا ہونا ضروری تھا۔
انٹرویو ہوا تو انہوں نے مجھے سلیکٹ کر لیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو ایک فارم ای میل کر دیں گے، آپ اسے پڑھ کر اپنا ڈیٹا بھر دیجئے گا، ہم اس کے بعد آپ کو ای میل کے ذریعے ہی نوکری پر باقاعدہ آنے کی اطلاع دے دیں گے، آپ ہمیں اپنا ای میل ایڈریس نوٹ کروا دیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ میرا تو کوئی ای میل ایڈریس نہیں بنا ہوا۔ میرے پاس کوئی کمپیوٹر نہیں ہے اور انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے، ہمارے گھر میں تو ٹیلی فون لائن ہی نہیں ہے جس سے انٹرنیٹ چل سکے۔ انہوں نے میری بات سن کر کہا کہ پھر ہم آپ کو نہیں رکھ سکتے کہ ہماری کمپنی میں صرف ای میل کے ذریعے ہی رابطہ ممکن ہے، لہٰذا ہم آپ کی جگہ دوسرے لڑکے کو آفس بوائے کے لئے منتخب کرنے پر مجبور ہیں، آپ جا سکتے ہیں۔ مَیں سافٹ ویئر کمپنی سے سوری سن کر باہر نکلا۔ سڑک کے کنارے پر کھڑا ہو گیا اور ارادہ کر لیا کہ مَیںنے کامیابی حاصل کرنی ہے۔ مَیں سیدھا گھر گیا۔ اپنی سائیکل پکڑی، جیب میں پڑے ہزار روپے نکال کر گنے جو پورے ہزار تھے اور سیدھا سبزی منڈی پہنچ گیا۔ مَیںنے وہاں سے ٹماٹر کی ایک پیٹی خریدی، سائیکل پر رکھی اور شہر کے ایک خوشحال سیکٹر کی جانب چل پڑا۔ مَیں نے لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر انہیں ٹماٹر خریدنے کی پیشکش کی اور تقریباً ایک گھنٹہ میں میرے سارے ٹماٹر بک گئے۔
مَیںنے اگلے دن سائیکل کے ساتھ ٹوکریاں جڑوالیں اور ٹماٹروں کی دو پیٹیاں خرید کر بیچ دیں، اس طرح روز میرا کام بڑھنے لگا، مَیںنے ٹماٹروں کے ساتھ تازہ سبزیاں بھی لانی شروع کر دیں۔ چند ہی دنوں میں مَیں نے چنگ چی رکشہ کرایہ پر حاصل کر لیا اور سبزیاں اور پھل منڈی سے خرید کر فروخت کرنا شروع کر دیئے۔ میری اس علاقے میں خواتین سے اچھی خاصی واقفیت ہو گئی اور اکثر گھر میرے مستقل گاہک بن گئے تھے۔ مَیںنے چند دن اپنے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی رکھا، جب اس کی بھی گاہکوں سے جان پہچان ہو گئی، تو مَیں نے ایک پک اپ کرایہ پر حاصل کر لی، وہ بھائی کو دے دی اور خود چنگ چی پر ایک دوسرے سیکٹر میں سبزی فروخت کرنے لگا۔ میرا کاروبار ادھر بھی چل گیا تو ادھرمَیں نے ملازم رکھ لیا اور خود دوسرے علاقے میں چلا گیا۔ یوں تقریباً پانچ سال میں میرا کاروبار لاہور شہر میں بہت پھیل چکا تھا، سو مَیںنے اسے راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد اور گوجرانوالہ تک پھیلا دیا۔ آج میرا بہت وسیع کاروبار ہے،لیکن میری اس کامیابی کا راز میرا ای میل ایڈریس نہ ہونا ہے۔
ذرا سوچئے اگر1999ءمیں میرا ای میل ایڈریس ہوتا تو مَیںآج اس سافٹ ویئر کمپنی میں آفس بوائے کا کام کر رہا ہوتا۔ مَیں صبح سویرے دفتر جاتا، صاحب لوگوں کی ٹیبل کرسیاں صاف کرتا۔ ان کے لئے دن بھر چائے بناتا، ان کی گالیاں سنتا اور مہینے بعد چند ہزار روپے تنخواہ لے کر اپنے گھر کا خرچہ چلانے سے قاصر ہوتا، مگر مَیں اس دن ای میل ایڈریس نہ ہونے کی وجہ سے ایک لمحے کے لئے بھی مایوس نہیں ہوا۔ مَیں نے اپنی اس کمزوری کو مایوسی میں نہیں بدلنے دیا اور بجائے اس کے کہ مَیں مایوس ہو جاتا، مَیں نے اپنی کمزوری کو طاقت میں بدلنے کا ارادہ کر لیا اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ آج مَیں ایک کامیاب تاجر ہوں، میرے آفس کا اپنے زونل آفس سے رابطہ بذریعہ فیکس اور ٹیلی فون ہوتا ہے۔ دفتر میں میرے سمیت کسی کا بھی ای میل ایڈریس نہیں ہے۔ ہمارا سارا لین دین فون اور فیکس کے ذریعے چلتا ہے، کیونکہ میرا یقین ہے کہ میری کامیابی کا راز ای میل ایڈریس نہ ہونا ہے، یہی وہ کمزوری ہے، جس نے مجھے طاقت عطا کی اور کامیابی کے راستے پر ڈال دیا۔ کمزوری سے مایوس ہونے کے بجائے اسے طاقت بناکر انسان کامیاب ہوسکتا ہے۔
قارئین ہم میں سے اکثر لوگ اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں، حالانکہ اگر ہم غورو فکر کریں اور مایوس ہونے کی بجائے امید کا دامن تھام لیں تو یہی کمزوری طاقت بن سکتی ہے اور ناکامی کے احساس تلے دبنے سے بچا کر کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوسکتی ہے۔ انسان کی کمزوری ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ راستہ جتنا دشوار ہو، عزم اتنا ہی مضبوط بنتا چلا جائے تو منزل تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ ہماری غربت، کم تعلیم، نامساعد حالات، سفارش اور رشوت نہ ہونے سے معاشرے میں ترقی نہ کرپانے کا خیال محض بہانے، کاہلی، سستی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں، اگر ہم لوگ ارادہ کر لیں کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے تو یقین جانیں ہماری غربت، کم تعلیم اور ایسی ہی کمزوریاں طاقت میں بدل سکتی ہیں اور کامیابی کے راستے میں ہم بہت آگے جا سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم کمزوریوں کو مایوسی اور ناامیدی میں نہ بدلنے دیں، بلکہ یہ یقین رکھیں کہ یہ کمزوریاں ہی دراصل ہماری اصل طاقت ہیں۔ ان میں امید کے کئی چراغ ٹمٹا رہے ہیں اور ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان سے روشنی حاصل کرکے کامیابی کے سفر پر روانہ ہوں۔ اٹھیے مایوسی کی دھند سے نکلئے ۔ اقربا پروری ، رشوت، سفارش اور غیرمنصفانہ نظام کی کمزوریوں کو طاقت میں بدل کر اس ملک کے سرمایہ دار طبقے سے اپنا حق چھیننے اور اپنی کامیابیوں کے راستے پر سفر کا آغاز کیجئے کہ متوسط طبقہ جن کمزوریوں کی وجہ سے آگے بڑھنے سے خوفزدہ ہے اور مایوسی کا شکار ہے، وہی اس کی اصل طاقت ہیں۔ اس فرسودہ نظام سے خوفزدہ اور مایوس ہونے کی بجائے اسے اپنے قدموں تلے روندنے کے لئے سفر کا آغاز کیجئے، کامیابی آپ کی منتظر ہے۔ ٭